اقلیتوں کے تحفظ کیلئے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی پہل، پروفیسر محمد یونس کا ڈھاکہ کے ڈھکیشوری مندر کا دورہ
بنگلہ دیش میں تشدد اور اقلیتوں کے احتجاج کے درمیان عبوری حکومت کاہندو برادری کو تحفظ اور سلامتی کی یقین دہانی کرائی،مسلم نمائندوں اور ہندو برادری کے درمیان باہمی گفت و شنید،اتحاد کی اپیل
ڈھاکہ ،14 اگست :۔
بنگلہ دیش سیاسی بحران کے درمیان ملک میں اقلیتوں میں بڑے پیمانے پر خوف اور تشویش کی فضا پیدا ہو گئی ہے،ہندو مندروں اور گھروں پرمبینہ حملوں کی خبروں کے درمیان ملک میں دائیں بازو کی حامل شدت پسندہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا موقع مل گیا ہے ۔وہ پورے ملک میں اس بہانے مسلمانوں پر حملے کیلئے ہندو اکثریت کو اکسا رہی ہیں ۔دریں اثنا بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سر براہ پروفیسر محمد یونس نے گزشتہ کل منگل کو ڈھاکہ کے تاریخی ڈھاکیشوری مندر کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں کو ملک میں ان کے تحفظ اور سیکورٹی کی کا یقین دلایا۔
بنگلہ دیش کے ڈیلی اسٹار اور ٹریبیون کی اطلاع کے مطابق اس موقع پر پروفیسر محمد یونس نے کہا کہ "حقوق سب کے لیے برابر ہیں۔ ہم سب ایک قوم ہیں۔ ہمارے درمیان کوئی تفریق نہ کریں۔ براہ کرم، ہماری مدد کریں۔ صبر سے کام لیں، اور بعد میں فیصلہ کریں – ہم کیا کر سکے اور کیا نہیں۔ اگر ہم ناکام ہو جائیں تو ہم پر تنقید کریں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ "ہماری جمہوری خواہشات میں، ہمیں مسلمان، ہندو یا بدھ مت کے طور پر نہیں بلکہ انسانوں کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ ہمارے حقوق کو یقینی بنایا جائے۔ تمام مسائل کی جڑ ادارہ جاتی انتظامات کی تنزل میں پنہاں ہے۔ اسی لیے ایسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ادارہ جاتی انتظامات کو درست کرنے کی ضرورت ہے،‘‘۔
ڈیلی سٹار کے مطابق، یونس نے بنگلہ دیش پوجا اُجاپن پریشد اور مہا نگر سربجانین پوجا کمیٹی کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ مندر کے انتظامی بورڈ کے عہدیداروں سے ملاقات کی۔ پروفیسر یونس کے ساتھ مشیر قانون آصف نذر اور مذہبی امور کے مشیر اے ایف ایم خالد حسین بھی موجود تھے۔
رپورٹ کے مطابق پروفیسر یونس کے دورے کے بعد مندر میں مسلم کمیونٹی اور ہندو اقلیت کے نمائندوں کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی۔ اس اجتماع نے کھلے مکالمے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کیا، جہاں دونوں برادریوں نے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کے لیے کام کیا۔اجلاس کے شرکاء نے باہمی افہام و تفہیم کا اظہار کیا اور پرامن معاشرے کے قیام کے لیے اتحاد کی اہمیت پر زور دیا۔
مزید، انہوں نے ایک دوسرے کو یقین دلایا کہ اقلیتی ہندو برادری کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور انہیں ہراساں کرنے یا حملہ کرنے کی کسی بھی کوشش کا قانونی جواب دیا جائے گا۔