طالبان نے خواتین کو سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلے کی اجاز ت دی،اقوام متحدہ کا خیر مقدم

کابل،24 فروری :۔

افغانستان میں انتظامی امور سنبھالنے کے بعد طالبان کے جن فیصلوں پر دنیا بھر میں تنقیدیں ہوئیں ان میں خواتین کے تعلق سے ان کی تعلیم ملازمت کا مسئلہ ہمیشہ سرخیوں میں رہا ہے ۔اب طالبان نے ایک اہم پیش رفت کرتے ہوئے خواتین کے لئے سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلے کی اجازت دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق طالبان نے مبینہ طور پر افغانستان میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل لڑکیوں کو مارچ میں شروع ہونے والے نئے تعلیمی سال کے لیے سرکاری میڈیکل اداروں میں داخلہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔

افغان نیوز ایجنسی کے مطابق گزشتہ روز کابل میں صحت عامہ کی وزارت کے ایک ڈائریکٹو کے بعد ایک درجن سے زیادہ افغان صوبوں میں داخلے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ایجنسی نے اس بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کیں۔

افغانستان کی سرکاری نیوز ایجنسی باختر کی رپورٹ کے مطابق افغان وزارتِ صحت کی ہدایت کے بعد ایک درجن سے زائد افغان صوبوں کے میڈیکل کالجز میں خواتین کے داخلے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد وہ لڑکیاں جو بارہویں پاس ہیں کپیسا، پکتیا، پاروان، پنجشیر، پکتیکا، بامیان، بدخشاں، غزنی، میدان واردک، خوست اور لوغار سمیت ملک کے کئی صوبوں کے میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے رجوع کرسکتی ہیں۔

طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے لڑکیوں کی چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے اور خواتین کو سرکاری اور نجی شعبوں میں کام کرنے سے روک دیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اقوام متحدہ کے مشن نے کہا کہ یو ایم اے ایم اے کی جانب سے افغان عبوری حکومت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا جاتا ہے، جس کے تحت ملک کے 11 صوبوں میں لڑکیاں میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل کرپائیں گی۔اقوام متحدہ نے اس فیصلے کو جنگ زدہ ملک میں طبی سہولیات میں پائے جانے والا خلا کم کرنے کی جانب اہم قدم قرار دیا۔بیان میں کہا گیا کہ خواتین اور لڑکیوں کو ثانوی اور اعلیٰ تعلیم تک رسائی ضروری ہے۔

واضح رہے کہ اگست 2021ء میں طالبان نے افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد لڑکیوں پر چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کردی تھی، یہی نہیں بلکہ خواتین کو تمام سرکاری و نجی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا تھا جس کی وجہ سے اُنہیں شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔