اسلام کی تبلیغ کرنا جرم نہیں

 کرناٹک ہائی کورٹ نے تین  مسلم نوجوانوں کے خلاف ایف آئی آر منسوخ کر دی

نئی دہلی ،25 جولائی:۔

بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں مسلم اداروں اور سرکردہ مسلم مذہبی رہنماؤں کو تبلیغ دین اور اسلام کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔اور منمانے طریقے سے جبری تبدیلی مذہب کا الزام عائد کر کے گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔خاص طور پر اتر پردیش کی یوگی حکومت نے تبدیلی مذہب قانون کا بے جا استعمال کر رہی ہے ۔حالیہ دنوں میں اتر پردیش کے سدھارتھ نگر سے تعلق رکھنے والے الفاروق انٹر کالج کے ذمہ دار مولانا شبیر احمد مدنی کو تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار کیا ہے ۔اور اس معاملے کو طول دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔دریں اثنا  کرناٹک ہائی کورٹ نے  ایسے ہی تبلیغ اسلام کے الزام میں گرفتار کئے گئے تین مسلم نوجوانوں کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کر دیا ہے جن پر ایک ہندو مندر میں اسلام کی تعلیمات کو فروغ دینے والے پمفلٹ تقسیم کرنے اور اپنے مذہبی عقائد کی زبانی وضاحت کرنے کا الزام تھا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ صرف مندر میں اسلام کی تشہیر کرنے والے پمفلٹ تقسیم کرنا اور اس کی وضاحت کرنا جرم نہیں بنتا، جب تک کہ مذہب کی تبدیلی کا کوئی ثبوت نہ ہو۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق ملزمان پر تعزیرات ہند 2023 کی دفعہ 299، 351(2) اور 3(5) اور کرناٹک پروٹیکشن آف رائٹس آن فریڈم آف ریلجن ایکٹ 2022 کی دفعہ 5 کے تحت  الزام  عائد  کیے گیے تھے ۔ سماعت کے دوران جسٹس وینکٹیش نائک ٹی کی بنچ نے کہا کہ ملزمان نے مذکورہ بالا قانون کے تحت  کوئی جرم نہیں کیا ہے  کیونکہ ان لوگوں نے کسی بھی شخص کو اسلام قبول کرنے یا مذہب تبدیل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

رپورٹ کے مطابق، شکایت کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ 4 مئی 2025 کو شام 4:30 بجے جب وہ جمکھنڈی کے رام تیرتھ مندر گیا تو کچھ لوگ مندر کے احاطے میں لوگوں کو اسلامی تعلیمات کا پرچار کرنے اور زبانی طور پر اپنے مذہبی عقائد کی وضاحت کرنے والے پمفلٹ تقسیم کر رہے تھے۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ جب موقع پر موجود ہندو شردھالووں نے ان سے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا تو جواب میں مسلم نوجوانوں نے مبینہ طور پر ہندو مذہب پر تنقید کرتے ہوئے توہین آمیز تبصرے کیے۔شکایت کنندہ نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ ملزمان مندر میں موجود لوگوں کو اسلام قبول کرنے کے بدلے میں کار اور دبئی میں  نوکری دینے کا وعدہ کر رہے تھے۔ دوسری جانب ان کے خلاف درج جرم کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ وہ صرف اللہ یا رسول اللہ کی تعلیمات کی تبلیغ کر رہے ہیں۔

بہر حال کورٹ نے تمام معاملوں کو بغیر جائزہ لینے کے بعد پایا کہ اپنے مذہب کی تبلیغ یا اس کی وضاحت پر مبنی پمفلٹ تقسیم کرنا کسی بھی طرح جبراً تبدیلی مذہب کے زمرے میں نہیں آتا اور تینوں مسلم نوجوان کے خالف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا فیصلہ سنایا۔