اسلامی اسکالر طارق رمضان زیادتی کے الزام سے بری،سوئس عدالت نے سنایا فیصلہ
نئی دہلی،26مئی :۔
سوئس عدالت نے معروف اسلامی سکالر طارق رمضان کو ریپ اور جنسی زیادتی کے الزامات سے بری کر دیا ہے۔یہ کیس ایک سوئس خاتون نے منظر عام پر لایا تھا جس کا کہنا تھا کہ رمضان نے 2008 میں جنیوا کے ایک ہوٹل میں اسے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
انڈیا ٹو مارو کی رپورٹ کے مطابق 57 سالہ سوئس خاتون، جس کی شناخت کو پوشیدہ رکھنے کے لئے بریگبرگزٹ کا فرضی نام دیا گیا ۔نے فیصلہ آنے سے پہلے ہی عدالت سےسے نکل گئی ۔ استغاثہ نے گزشتہ ہفتے رمضان کے لیے تین سال قید کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس پر عصمت دری کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔
اسلام قبول کرنے والی اور رمضان کی پرستار خاتون نے عدالت کو بتایا کہ اسے بھی وحشیانہ جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس نے الزام لگایا کہ ایسا اس وقت ہوا جب اسے ایک کانفرنس کے بعد آکسفورڈ کے سابق ماہر تعلیم نے کافی کے لیے مدعو کیا تھا۔بریگزٹ کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس کے ساتھ بار بار عصمت دری کی گئی اور اسے "تشدد اور بربریت” کا نشانہ بنایا گیا۔
رمضان نے اسے اپنے ہوٹل کے کمرے میں مدعو کرنے کا اعتراف کیا، لیکن اس نے کسی قسم کے تشدد سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان پر لگائے گئے تمام الزامات سیاسی طور پر ہیں اور انہیں بدنام کرنے کے لیے لگائے گئے ہیں۔یورپ میں اسلام کی ایک سرکردہ شخصیت کے طور پر شناخت رکھنے والے رمضان نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ ان کے اور بریگزٹ کے درمیان کوئی جنسی حملہ نہیں ہوا تھا اور وہ ایک سازش کا شکار تھیں۔ان کے فرانسیسی اور سوئس وکلاء نے بھی مبینہ حملوں کی تاریخوں میں کئی تضادات کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگانے والوں کی سچائی پر سوال اٹھایا۔
طارق رمضان کی اس دلیل میں ان کے اہل خانہ نے تائید کی۔ ان کے بیٹے سمیع نے 2019 میں بی بی سی کو بتایا کہ ان کے والد کے خلاف مقدمات "دوسری وجوہات سے متاثر تھے، جو ہمارے خیال میں سیاسی ہیں”، اس نے اپنے والد کے "فرانس میں اسلام کے بارے میں بحث میں کردار” کی طرف اشارہ کیا۔
دفاع نے رمضان کی بے گناہی پر اصرار کیا اور کہا کہ اس کیس میں کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے عدالت میں اپنے حتمی بیان کے دوران، رمضان نے کہا کہ ان کے ساتھ ان کے "حقیقی یا سمجھے ہوئے نظریے” کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جائے گا اور ججوں پر زور دیا کہ وہ "میڈیا اور سیاسی شور سے متاثر نہ ہوں”۔
انہوں نے کہا بھول جاؤ میں طارق رمضان ہوں!
سوئس نژاد اسکالر کو 2018 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب متعدد خواتین نے #MeToo تحریک کے نتیجے میں ان پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ انہیں تقریباً 10 ماہ فرانسیسی حراست میں رہنے کے بعد ان مقدمات میں ضمانت دی گئی تھی۔ان کے وکلاء نے بریگزٹ اور ان خواتین پر بھی الزام لگایا جنہوں نے فرانس میں اس کے خلاف اسلامی اسکالر کو بدنام کرنے کا الزام لگایا، "رمضان فوبیا” کا حوالہ دیا۔رمضان نے مسلسل تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
واضح رہے کہ رمضان مصر کی اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا کے پوتے ہیں۔رمضان نے جنیوا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ نومبر 2017 تک آکسفورڈ میں عصری اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر رہے اور قطر اور مراکش کی یونیورسٹیوں میں وزٹنگ پروفیسر کے طور پر ذمہ داریاں نبھائیں۔
فرانس میں ریپ کے الزامات سامنے آنے پر رمضان کو اپنے تعلیمی سر گرمیوں سے وقفہ لینا پڑا۔