اسلامو فوبک ماحول کے باوجود برطانیہ میں مسلم رہنماؤں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ

پچیس مسلم برطانیہ ہاؤس آف کامنس کے لئے منتخب ،2017 اور2019 کے مقابلے نمایا ں اضافہ

لندن ،09 جولائی :۔

حالیہ کچھ برسوں میں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زبر دست نفرت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے ،امریکین اور یوروپی ممالک میں اسلامو فوبیا کی ایک لہر دیکھی جا رہی ہے لیکن ان سب کے درمیان ایک مثبت ماحول یہ ہے کہ برطانیہ کے حالیہ الیکشن اور فرانس میں ہوئے انتخابات میں شدت پسند جماعتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اسلامو فوبک  لہر کے باوجود   حالیہ برطانوی پارلیمانی الیکشن  میں 25 مسلمانوں کو ہاؤس آف کامنز کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ یہ ریکارڈ تعداد ہے۔متعدد مسلم آزاد فلسطین کے حامی امیدواروں نے لیبر پارٹی کے  گڑھ کہے جانے والے علاقوں میں جیت درج کی ۔ان آزاد امیدواروں میں لیسٹر ساؤتھ میں شوکت ایڈم، ڈیوسبری اینڈ بیٹلی میں اقبال محمد، بلیک برن میں عدنان حسین اور برمنگھم پیری بار میں ایوب خان شامل ہیں۔یہ 2019 میں 19 اور 2017 کے انتخابات میں 15 نشستوں سے نمایاں اضافہ ہے۔

واضح رہے کہ برطانیہ کی مسلم آبادی، جس کی تعداد 3.4 ملین ہے، انتخابی لحاظ سے بہت  اہم  ہے۔پہلی بار جیتنے والے آٹھ مسلم امیدواروں کی ایک تاریخی تعداد نے پارلیمانی نشستیں جیتیں، جو لیبر اور آزاد امیدواروں کے لیےیادگار دن ہے۔منتخب ہونے والوں میں 15 لیبر پارٹی سے، چار آزاد امیدوار اور دو کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ سے ہیں۔

قابل ذکر نئے لیبر ایم پیز میں نارتھ سمرسیٹ میں صادق الحسن، شیفیلڈ سینٹرل میں ابتسام محمد اور گلاسگو ساؤتھ ویسٹ میں زبیر احمد شامل ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، برطانیہ میں 20 حلقے ہیں۔ جہاں 30 فیصد سے زیادہ رائے دہندگان مسلمان ہیں۔ ان تمام حلقوں سے 2019 میں لیبر ایم پی منتخب ہوئے۔

ان میں برمنگھم ہوج ہل میں سب سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی 62% ہے، اس کے بعد بریڈ فورڈ ویسٹ میں 59%ایلفورڈ ساؤتھ  میں 44%، اور لائسسٹر ساؤتھ میں 32% ہے۔