اسلاموفوبیا کا اثر:بہرائچ کے پرائیویٹ اسکول نے سوالیہ پرچے میں ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑا
مقامی مسلمانوں میں غم و غصہ ،ہنگامے کے بعد اسکول انتظامیہ نے عوامی طور پر معافی مانگی اور ذمہ دار ٹیچر کو معطل کر دیا
نئی دہلی ،29 ستمبر :۔
ملک میں اسلاموفوبیا کا اثر ہر طرف نظر آ رہا ہے ۔ آئے دن اس طرح کے وقعات منظر عام پر آ رہے ہیں ۔اب اتر پردیش (یو پی) کے بہرائچ میں ایک ایسا معاملہ سامنے آیا ہے جس سے مسلم دشمنی اور اسلامو فوبیا کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہاں کے ایک پرائیویٹ سکول میں ششماہی امتحانات چل رہے ہیں۔ اس دوران نویں جماعت کے ہندی سوالیہ پرچہ میں ہندوستانی مسلم دہشت گردی لکھا گیا ہے۔ اس بات کا انکشاف ہونے کے بعد مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق معاملہ گرو کرپا ڈیوائن گریس پبلک اسکول کا ہے۔ اس اسکول کا سوالیہ پرچہ سوشل میڈیا پر گزشتہ کئی دنوں سے وائرل ہو رہا ہے ۔ اس معاملے کو لے کر مسلمانوں نے ضلع مجسٹریٹ مونیکا رانی کو شکایتی خط دیا ہے اور بہرائچ کے ڈیوائن گریس پبلک اسکول کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق امتحان کے دوران طلباء کو عالمی دہشت گردی کے حوالے سے ایک سوال پیش کیا گیا جس میں دہشت گردی کو نظریاتی اسلامی سیاست سے منسوب کیا گیا۔
ہندی زبان میں موجود سوالیہ پرچے میں لکھا ہے کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جو انسانیت کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ اس کی بڑی وجہ سیاسی خود غرضی، اقتدار کی لالچ اور مذہبی جنونیت ہے جو دہشت گردوں کو جنم دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا نظام فکر ہے جس میں ہندوستانی مسلم دہشت گردی، لشکر طیبہ، القاعدہ، طالبان طالبان اور اسلامی سیاست کی مختلف تنظیمیں شامل ہیں۔ دہشت گردی کے مسئلے کا صحیح حل یہ ہو سکتا ہے کہ ان وجوہات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔
لوگوں کے غصے کو دیکھتے ہوئے اسکول انتظامیہ نے عوامی طور پر معافی مانگی ہے۔“اسکول انتظامیہ نے طلباء، والدین اور پوری کمیونٹی سے تحریری طور پر معافی مانگی ہے، متعلقہ ٹیچر نے تحریری معافی مانگی ہے لیکن اسے ہٹا دیا گیا ہے۔ 22 ستمبر کو ہونے والا امتحان منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اسکول کے ڈائریکٹر نے ایک بیان میں کہا کہ نیا امتحان 3 اکتوبر کو لیا جائے گا۔
اسکول انتظامیہ نے کہا کہ”ہم تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں۔ ہم اپنے آئین کی روح کے مطابق کام کرتے ہیں اور تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ جو کچھ ہوا وہ ٹیچر کی غلطی کی وجہ سے ہوا پھر بھی اسے ہٹا دیا گیا ہے۔ ہمیں اس ناانصافی پر شدید دکھ ہوا ہے۔ ہم پولیس اور انتظامیہ سے معذرت خواہ ہیں،‘‘ ۔”ہم ایک بار پھر پوری مسلم کمیونٹی سے معافی مانگتے ہیں اور پوری قوم سے بھی معافی مانگتے ہیں جو تنوع میں اتحاد پر فخر کرتی ہے”۔
دریں اثناء جمعیۃ علماء ہند کے ضلع صدر مولانا قاری زبیر نے کہا کہ پرائیویٹ اسکول میں جاری سوالیہ پرچہ میں مسلمانوں کے حوالے سے کئی متنازعہ تبصرے ہیں۔ اس میں ہندوستانی مسلمانوں کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے بتایا گیا ہے اور مسلمانوں کا دہشت گردوں سے موازنہ کیا گیا ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔ معاملہ زور پکڑتا دیکھ کر انتظامیہ نے تحقیقات شروع کر دی۔
دوسری طرف بہرائچ کے ضلع اسکول انسپکٹر نریندر دیو نے اس معاملے پر کہا، "مجھے کلکٹریٹ سے ایک افسر کا فون آیا جس میں مجھ سے تحقیقات کرنے اور کارروائی کے بارے میں مطلع کرنے کو کہا گیا، میں نے فوری طور پر وہاں کے پرنسپل سے رابطہ کیا، رات ہو گئی تھی اور فون نہیں اٹھایا گیا، اگلے دن جب میں نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے اپنے لیول پر ٹیچر سے معافی کی درخواست لی ہے، ہم نے اپنی سطح پر اس کی خدمات ختم کر دی ہیں، ہم نے ان سے کہا کہ آپ کی طرف سے کی گئی کارروائی مجھے بھیج دیں۔ کلکٹریٹ کو اس پوری رپورٹ کی ہارڈ کاپی، اس قسم کا سوال نہیں کرنا چاہیے، کسی خاص شخص کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے ، انہوں نے کہا کہ اسکول انتظامیہ نے اپنی سطح پر ٹیچر کو معطل کر کے اچھا کیا۔