اسرائیل کے ذریعہ ایران اور غزہ پر حملوں پر حکومتِ ہند کی خاموشی ہندوستانی اصولوں سے انحراف
کانگریس پارلیمانی پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے مرکزی حکومت کے رویہ سوال اٹھاتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا

نئی دہلی،21جون :۔
ہندوستان کا موقف ہمیشہ دنیا میں ظلم اور نا انصافی کے خلاف کھڑے ہونے والے ملک کی رہی ہے ۔دنیا بھر میں رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ تعصب اور نا انصافی کے خلاف ملک کے سر کردہ رہنما ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔مہاتما گاندھی کے ذریعہ افریقہ میں رنگ و نسل کے تعصب کو ختم کرنے کی مہم کو آج بھی دنیا یاد کرتی ہے ۔اسی طرح ہندوستان فلسطین میں برسوں سے عربوں کے ساتھ جاری ظلم زیادتی کے خلاف بھی ایک مضبوط آواز رہی ہے مگر موجودہ حکومت کی آمد کے بعد ملک کے نظریات میں تبدیلی نظر آ رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت خواہ آج کا اسرائیل کے ذریعہ ایران پر حملہ ہو یا فلسطین پر اسرائیلی ظلم و زیادتی کھل کر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں نا کام رہی ہے ۔ مرکزی حکومت کے حالیہ رویہ پر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ کیا حکومت ملک کے قدیم موقف اور خارجہ پالیسی میں تبدیلی کر رہی ہے ؟کیا ایران کے ساتھ ہمارے تاریخی اور ثقافتی روابط کو در کنار کیا جا رہا ہے ؟کانگریس کی پارلیمانی پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے مرکزی حکومت کے موجودہ مشکوک رویہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ سونیا گاندھی کا ایک مضمون انگیزی اخبارات میں شائع ہوا ہے جس پر ہنگامہ برپا ہے ۔
’دی ہندو‘ اخبار کے اداریے میں شائع شدہ اپنے تفصیلی مضمون میں سونیا گاندی نے اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیے گئے حالیہ حملے اور غزہ میں جاری انسانی بحران پر حکومتِ ہند کی خاموشی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 13 جون 2025 کو اسرائیل نے ایران کی خودمختاری کے خلاف جو حملہ کیا وہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یکطرفہ عسکریت پسندی کی ایک خطرناک مثال بھی ہے، جس کے سنگین علاقائی اور عالمی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
سونیا گاندھی کے مطابق، انڈین نیشنل کانگریس نے ایران میں اسرائیلی بمباری اور ہدفی قتل کی شدید مذمت کی ہے۔ ان حملوں کو انہوں نے اسرائیل کی ان پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا جو حالیہ برسوں میں غزہ میں بھی دیکھنے کو ملی ہیں، جہاں عام شہریوں اور علاقائی استحکام کو نظر انداز کرتے ہوئے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسی کارروائیاں صرف مزید بدامنی اور تصادم کو جنم دیں گی۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب ایران اور امریکہ کے درمیان سفارتی بات چیت کے پانچ دور مکمل ہو چکے تھے اور چھٹا دور طے شدہ تھا۔ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کو جارحانہ، شدت پسند اور امن دشمن قیادت کا نمائندہ قرار دیا، جس نے فلسطینی علاقوں میں آباد کاری، انتہا پسند جماعتوں سے اتحاد اور خطے میں مسلسل جنگی فضا قائم رکھی ہے۔
سونیا گاندھی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے کہا کہ جو صدر کبھی امریکہ کی نہ ختم ہونے والی جنگوں اور فوجی و صنعتی اتحاد کی مخالفت کرتے تھے، وہ اب انہی تباہ کن پالیسیوں کے حامی بن گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے خود اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ عراق میں جھوٹے دعووں کی بنیاد پر مسلط کی گئی جنگ کے سبب خطہ تباہی اور عدم استحکام سے دوچار ہوا۔
مضمون میں دوہرے معیار کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ اسرائیل خود ایک جوہری ریاست ہے جس پر کوئی بین الاقوامی روک نہیں، جبکہ ایران نے بین الاقوامی معاہدوں کے تحت سخت پابندیاں اور نگرانی قبول کی ہے۔ امریکہ کی جانب سے 2018 میں جوہری معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی کو انہوں نے سفارت کاری کو ترک کرنے کی ایک تباہ کن مثال قرار دیا۔
سونیا گاندھی نے اس بات پر زور دیا کہ ایران نے تاریخی طور پر ہندوستان کا ساتھ دیا ہے، خاص طور پر 1994 میں جب اقوام متحدہ میں کشمیر پر ہندوستان کے مؤقف کی حمایت کی گئی تھی۔ ان کے مطابق ایران کا موجودہ نظام، سابق شاہی حکومت کے مقابلے میں ہندوستان سے کہیں زیادہ تعاون کرنے والا ثابت ہوا ہے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ حالیہ دہائیوں میں ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات میں بھی وسعت آئی ہے لیکن اسی دوطرفہ توازن کے پیش نظر ہندوستان پر ایک اخلاقی اور سفارتی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مغربی ایشیا میں امن کی بحالی کی کوششوں میں قائدانہ کردار ادا کرے۔
سونیا گاندھی نے کہا کہ اسرائیل کے حالیہ اقدامات کو مغربی طاقتوں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ غزہ اور ایران جیسے مقامات پر انسانی حقوق کو روندنے سے باز نہیں آتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کانگریس نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کی شدید مذمت کی تھی لیکن اسرائیل کا غیر متناسب، بے رحمانہ ردعمل، جس میں 55 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے، خاندان اور اسپتال تباہ ہوئے اور غزہ قحط کے دہانے پر ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے حکومتِ ہند، خاص طور پر نئی دہلی کی خاموشی کو اخلاقی پسپائی اور ہندوستانی اصولوں سے انحراف قرار دیا۔ ان کے مطابق، ایسی خاموشی نہ صرف عالمی برادری میں ہندوستان کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس کی اخلاقی قیادت کے دعوے کو بھی بے معنی بنا دیتی ہے۔