اسرائیلی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہزاروں کٹر مذہبی انتہا پسند یہودیوں کا مظاہرہ

تل ابیب ،یکم جولائی
ہزاروں انتہا پسند کٹر مذہبی یہودیوں نے اسرائیلی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف یروشلم میں سخت احتجاج کیا ہے۔ کٹر مذہبی یہودی لازمی فوجی خدمات سے عدالتی حکم کے تحت استثناءکے خاتمے کے خلاف غصے سے بے قابو ہو رہے ہیں۔
ان کا دیرینہ موقف ہے کہ جنگ میں حصہ لینے کے لیے نہیں بلکہ غیر مذہبی یہودیوں کو جنگوں میں ابھارنے کے لیے ہیں تاکہ غیر مذہبی یہودی مسلمانوں سے لڑتے رہیں مگر مذہبی عقیدے میں کٹر یہودیوں کو رہنمائی اور تبلیغ کے لیے چھوڑ دیں۔
سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں پچھلے ہفتے کے آس پاس ہی ایک اہم فیصلے میں اس استثناء کو غلط قرار دیا ہے اور حکومت سے کہا ہے کہ مذہبی اعتبار سے کٹر یہودی مردوں کو بھی جنگی خدمات کا پابند کرنے کے لیے قانون بنائیں۔ اگرچہ قدیمی وقتوں سے مذہبی اور کٹر یہودی جنگ میں خود زخمی ہونے اور مرنے سے خود کو بچانے کی ڈگر پر رہے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کو بھی انکار کر دیا تھا اور کہا تھا آپ خود ہی لڑیں۔ ہم لڑنے کے نہیں۔
اس لیے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ان کٹر یہودیوں کی روایت کو ہی پامال کر دیا ہے۔ جس کے خلاف ایک کٹر یہودیوں کی بستی میں ہزاروں اس نوع کے کٹر یہودی احتجاج اور سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کرنے سڑکوں پے جمع ہوئے۔
رات کے آغاز کے قریب یہ کٹر یہودی وسطی یروشلم میں داخل ہو گئے۔ اس دوران ان یہودیوں نے اسرائیلی پولیس پر پتھراو¿ کیا اور پولیس کے ساتھ ان کی متشدد مڈ بھیڑ ہو گئی۔ پولیس نے بھی انہیں منتشر کرنے کے لیے ان پر بدبودار پانی پھینکا۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے کٹر یہودی وزیر کی گاڑی کو نشانہ بنایا جو مطالبہ کر رہے تھے کہ ہمیں جنگ میں نہ جھونکا جائے، ہمیں جنگوں میں نہ مروایا جائے۔ لیکن رات گئے تک ان متشدد انداز اختیار کر چکے کٹر یہودی مذہبیوں کے ہجوم کو کنٹرول نہ کیا جا سکا۔
واضح رہے اسرائیل میں مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے فوجی خدمات دینا لازمی ہے۔ لیکن سیاسی اعتبار سے بہت بااثر ہو چکی انتہا پسند کٹر یہودی مذہبی سیاسی جماعتیں اس کو یہودی مذہبی لوگوں کے لیے درست خیال نہیں کرتیں۔
اس صورتحال میں بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کو جہاں ایک طرف عدالت نے حکم دیا ہے کہ ان کٹر مذہبی یہودییوں کو لازمی فوجی خدمات کے قانون کے تابع بنانے کے کیے مسودہ تیار کرے وہیں حکمران اتحاد میں شامل اہم انتہا پسند جماعتوں نے حکومت کو خبردار کر دیا ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو وہ حکومت کو چھوڑ دیں گے جس سے یاہو حکومت ختم ہوجائے گی۔
اس عدالتی فیصلے کی وسیع پیمانے پر عوام اور اپوزیشن نے تائید کی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بلا امتیاز سب کو قوم کے لیے خدمات دینی چاہیے لیکن کٹر اسرائیلی گروپ اس کے خلاف ہیں۔ سات اکتوبر سے غزہ میں جاری جنگ کے نتیجے میں اب تک 600 سے زائد اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں۔