اروناچل:تبدیلی مذہب مخالف قانون کے خلاف کرسچن فورم  کی بڑے پیمانے پر بھوک ہڑتال  

نئی دہلی ،18 فروری :۔

بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں تبدیلی مذہب قانون کو متعارف کرایا جا رہا ہے جس کے خلاف مسلمان تو آواز اٹھا ہی رہے ہیں اب عیسائیوں نے بھی اس کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کر دی ہے۔ اروناچل پردیش  میں حالیہ دنوں میں تبدیلی مذہب قانون کو نافذ کرنے کا اعلا کیا گیا ہے۔جس کے خلاف بڑے پیمانے پر عیسائیوں نے  مخالفت  شروع کر دی ہے۔

رپورٹ کے مطابق  ایک ممتاز مسیحی تنظیم اروناچل کرسچن فورم (اے سی ایف ) نے پیر کے روز متعدد اضلاع اور سب ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں اروناچل پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ، 1978 کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اجتماعی بھوک ہڑتال کی۔ فورم نے اس قانون کو "امتیازی” اور "غیر آئینی” قرار دیا ہے۔

یہ احتجاج ریاستی حکومت کے اس قانون کو نافذ کرنے کے حالیہ اقدام کے بعد ہے، جو کئی دہائیوں سے غیر فعال تھا۔ یہ فیصلہ اس وقت آیا جب گوہاٹی ہائی کورٹ نے ستمبر 2024 میں حکومت کو چھ ماہ کے اندر اس کے نفاذ کے لیے قواعد وضع کرنے کی ہدایت دی تھی۔

در اصل تبدیلی مذہب ایکٹ کو   زبردستی یا لالچ کے ذریعے مذہب کی تبدیلی کو روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔اس ایکٹ کی خلاف ورزی پر دو سال تک قید اور 10,000 روپے جرمانے کی سزا تجویز کرتا ہے۔ تاہم، اس میں نفاذ کے لیے ایک فریم ورک کا فقدان تھا ۔حالیہ عدالتی فیصلے نے اسے نافذ کرنے کے لیے نئے سرے سے کوششوں کا اشارہ نہیں دیا۔

اے سی ایف نے الزام لگایا ہے کہ قانون غیر منصفانہ طور پر عیسائی برادری کو نشانہ بناتا ہے، جو 2011 کی مردم شماری کے مطابق اروناچل پردیش کی آبادی کا 30.26 فیصد بنتی ہے۔

وزیر اعلیٰ  پیما کھانڈو نے حکومت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت کی ہدایت کی تعمیل کرتا ہے اور اس کا مقصد مقامی عقائد کا تحفظ کرنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قانون کسی مخصوص مذہبی گروہ کو نشانہ نہیں بناتا۔

ریاستی حکومت نے اے سی ایف کو 21 فروری کو بات چیت کے لیے مدعو کیا ہے، لیکن فورم نے ایکٹ کو مکمل طور پر منسوخ کرنے پر اصرار کیا ہے اور سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس نے مزید مظاہروں کا بھی اعلان کیا ہے، جس میں 6 مارچ کو ریاستی اسمبلی کی طرف مارچ بھی شامل ہے، قانون ساز اجلاس کے موقع پر جہاں قانون پر بحث متوقع ہے۔اے سی ایف کے سیکرٹری جنرل جیمز ٹیچی تارا نے کہا، "ہمیں نہیں لگتا کہ یہ معاملہ بات چیت سے حل ہو جائے گا، اور ہم ایکٹ کی منسوخی سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوں گے۔