اردو گنگا جمنی اور ہندوستانی تہذیب کا بہترین نمونہ ہے
اردو کو نفرت اور تعصب کا شکار بنانے والوں کو سپریم کورٹ کا سخت جواب،مہاراشٹر میں سائن بورڈ پر اردو کے استعمال معاملے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اردو ایلین نہیں ہے،اسی سر زمین میں پیدا ہوئی ہے

نئی دہلی ،16 اپریل:۔
اردو زبان کو ہمیشہ ہندو شدت پسند طبقہ نشانہ بناتا رہتا ہے ،اسے کبھی غیر ملکی زبان کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کبھی ایک مذہب خاص کی نمائندگی کرنے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔اور اس بنیاد پر ہر جگہ اردو بولنے والوں اور خود اردو زبان کو تعصب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں دائیں بازو کی نظریات کی حامل تنظیمیں خاص طور پر سر گرم رہتی ہے۔موجودہ بی جے پی کی حکومت میں یہ زبان مزید تعصب کا شکار ہے۔حالیہ دنوں میں اتر پردیش میں اردو زبان کو بنیاد پرستوں اور ملائیت کی زبان کا طعنہ دیا گیا اور ایوان کے اندر وزیر اعلیٰ نےاردو کو نشانہ بنایااور طنز کیا۔بلکہ اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے علاوہ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں اردو نام والے شہروں اور مقامات کے نام بھی تبدیل کئے جانے کا ایک چلن بن گیا ہے جونہ صرف مسلم دشمنی کو ظاہر کرتا ہےبلکہ اردو کے ساتھ تعصب کی بھی عکاسی کرتا ہے مگر منگل کو سپریم کورٹ نے اردو زبان پر وضاحت کرتے ہوئے جو باتیں کہی ہیں وہ یقیناًاردو کو نفرت اور تعصب کا شکار بنانے والوں اور غیر ملکی زبان کا طعنہ دینے والوں کو سخت جواب کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
دراصل مہاراشٹر کے اکولا ضلع میں پاٹور میونسپل کونسل کے سائن بورڈ پر مراٹھی کے ساتھ اردو کے استعمال پر اعتراض کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی اور اردو زبان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔گزشتہ روز منگل کو عدالت نے اس عرضی کو خارج کر دیا اورسخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان سمجھنا ہندوستان کی حقیقت اور تنوع کے بارے میں ایک بدقسمتی سے غلط فہمی ہے۔ عدالت نے مزیدکہا کہ زبان ثقافت ہے اور اسے لوگوں کو تقسیم کرنے کا سبب نہیں بننا چاہیے، اور اردو "گنگا جمنی تہذیب، یا ہندوستانی تہذیب کا بہترین نمونہ ہے ۔
رپورٹ کے مطابق جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن کی بنچ نے بمبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا کہ اردو کا استعمال مہاراشٹر لوکل اتھارٹیز (سرکاری زبانوں) ایکٹ 2022 کے تحت یا قانون کی کسی بھی شق میں ممنوع نہیں ہے۔ ایک سابق کونسلر نے مہاراشٹر کے اکولا ضلع میں پٹور میونسپل کونسل کی عمارت کے سائن بورڈ پر اردو کے استعمال کو چیلنج کرتے ہوئے عرضی داخل کی تھی۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران کہا کہ "ہماری غلط فہمیاں، شاید کسی زبان کے بارے میں ہمارے تعصبات کو بھی ہمت اور سچائی کے ساتھ حقیقت کے مقابلے میں آزمانا ہوگا، جو کہ ہماری قوم کا یہ عظیم تنوع ہے، ہماری طاقت کبھی ہماری کمزوری نہیں بن سکتی، آئیے اردو اور ہر زبان سے دوستی کریں۔” عدالت نے کہا کہ یہ ایک "غلط فہمی ہے کہ اردو ہندوستان کے لیے اجنبی ہے”، انہوں نے مزید کہا کہ "یہ ایک ایسی زبان ہے جو اس سرزمین پر پیدا ہوئی ہے”۔
جسٹس دھولیا نے اردو اور عام زبانوں کے بارے میں بینچ کے خیالات کی وضاحت کی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ "زبان مذہب نہیں ہوتی، زبان مذہب کی نمائندگی بھی نہیں کرتی، زبان کسی کمیونٹی، کسی علاقے، کسی قوم سے تعلق رکھتی ہے، کسی مذہب سے نہیں ۔
عدالت نے کہا کہ "ہمیں اپنی متعدد زبانوں سمیت اپنے تنوع کا احترام کرنا چاہیے اور خوشی منانی چاہیے۔ ہندوستان میں سو سے زیادہ بڑی زبانیں ہیں۔ پھر دوسری زبانیں ہیں جو بولی یا مادری زبانوں کے نام سے جانی جاتی ہیں جن کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق، ہندوستان میں کل 122 بڑی زبانیں تھیں جن میں 22 شیڈول زبانیں تھیں، اور کل چھ مادری زبانوں کی تعداد 24 ویں اردو تھی۔ ہندوستان درحقیقت تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں آبادی کا ایک حصہ بولتا ہے، سوائے ہماری شمال مشرقی ریاستوں کے۔
عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ اردو اپنی جڑیں ہندوستان میں ڈھونڈتی ہے اور اسے کسی خاص مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ "اردو کے خلاف تعصب اس غلط فہمی سے جنم لیتا ہے کہ اردو ہندوستان کے لیے اجنبی ہے۔ یہ رائے، ، غلط ہے کیونکہ اردو، مراٹھی اور ہندی کی طرح، ایک ہند آریائی زبان ہے، یہ ایک ایسی زبان ہے جس نے اس سرزمین میں جنم لیا تھا۔ اردو ہندوستان میں مختلف ثقافتی نظریات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ضرورت کی وجہ سے پروان چڑھی اور پھلی پھولی۔ اس نے پہلے سے کہیں زیادہ تطہیر حاصل کی اور بہت سے مشہور شاعروں کی پسند کی زبان بن گئی،” عدالت نے اپنے فیصلے میں نوٹ کیا۔بنچ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اردو ہندوستانی قانونی منظرنامے اور عدالتوں میں کتنی گہرائی سے سرایت کر گئی ہے۔
اردو کو غیر ملکی زبان یا صرف ایک مذہب کی زبان ماننا بالکل غلط
سپریم کورٹ نے اس غلط فہمی پر بھی تبصرہ کیا کہ اردو کو غیر ملکی زبان یا صرف کسی خاص مذہب کی زبان ماننا سراسر غلط ہے۔ عدالت نے کہا، "حقیقت یہ ہے کہ ہندی زبان کا روزانہ استعمال بھی اردو الفاظ کے بغیر نامکمل ہے۔ لفظ ‘ہندی’ خود فارسی کے لفظ ‘ہندوی’ سے آیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ ہندی اور اردو کے درمیان تقسیم نوآبادیاتی دور میں مذہب کی بنیاد پر کی گئی تھی، جو آج بھی ایک بڑی غلط فہمی کے طور پر موجود ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ’ہمیں اپنے تعصبات کی سچائی کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔ آئیے اردو اور ہر زبان سے دوستی کریں۔ ‘
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے نقطہ نظر کو برقرار رکھتے ہوئے کہا: "ایک میونسپل کونسل علاقے کی مقامی کمیونٹی کو خدمات فراہم کرنے اور ان کی روزمرہ کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے موجود ہے، اگر میونسپل کونسل کے زیر احاطہ علاقے کے اندر رہنے والے لوگ یا لوگوں کا ایک گروپ اردو سے واقف ہے، تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے اگر اردو کا استعمال میونسپل کونسل کی سرکاری زبان کے علاوہ، کم از کم مراٹھی زبان کے سائن بورڈ پر ہوتا ہے۔
بالآخر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے، عدالت نے کہا کہ سائن بورڈ پر مراٹھی کے ساتھ اردو کی موجودگی کسی قانونی یا آئینی شق کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ مہاراشٹر پبلک اتھارٹیز (سرکاری زبانیں) ایکٹ 2022 میں اردو زبان کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ صرف مراٹھی کا استعمال لازمی ہے، لیکن اس کے ساتھ دیگر زبانوں کے استعمال پر پابندی نہیں ہے۔ اس لیے درخواست قانون کی غلط تشریح پر مبنی ہے اور اسے خارج کیا جاتا ہے۔