اردو سے متعلق وزیر اعلیٰ یوگی کے قابل اعتراض تبصرہ پر سخت تنقید

اسمبلی میں اپوزیشن رہنما  ماتا پرساد پانڈے نے وزیر اعلیٰ کو ائینہ دکھایا،کانگریس رہنما عمران پرتاپ گڑھی نے آنند نارائن ملا کے شعر سے نشانہ بنایا

نئی دہلی ،20 فروری :۔(دعوت ویب ڈیسک)

گزشتہ روز اتر پردیش اسمبلی میں اردو کے خلاف وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہرزہ سرائی نے ہر طرف ناراضگی اور تنقید کا راستہ کھول دیاہے۔جہاں ایک طرف محبان اردو کی جانب سے وزیر اعلیٰ کی زبان پر تنقید کی جا رہی ہے وہیں سیاسی رہنماؤں نے بھی قابل اعتراض الفاظ کے استعمال کرنے بھی جم کر تنقید کی ہے۔اتر پردیش اسمبلی میں اپوزیشن رہنما سماج وادی پارٹی کے لیڈر ماتا پرساد پانڈے نےمنشی پریم چند اور فراق گورکھپوری کا ذکر کر کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر نشانہ سادھا تو وہیں کانگری رہنما عمران پرتاپ گڑھی نے آنند نرائن ملا کے شعر کے ذریعہ یوگی کی اردو دشمنی پر سخت تنقید کی ۔

اتر پردیش ایوان میں  اپوزیشن کے لیڈراورسماج وادی پارٹی کے رہنما ماتا پرساد پانڈے نےدوسرے دن زبر دست تنقید کی اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کو آئینہ دکھایا۔اتر پرردیش اسمبلی میں اپوزیشن رہنما ماتا پرساد پانڈے  اردو کے حوالے سے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے ‘کٹھ ملا’ بیان پر سخت اعتراض ظاہر کیا ہے۔ پانڈے نے آپریٹنگ رولز میں مجوزہ ترمیم کی مخالفت کی اور کہا کہ انگریزی کو اسمبلی کی زبان کے طور پر شامل کرنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اگر اسے شامل کرنا ہے تو سنسکرت اور اردو کو شامل کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ کے ‘اردو مخالف’ رویے کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ کیا اردو شاعر فراق گورکھپوری اور منشی پریم چند  کٹھ ملا تھے؟

ماتا پرساد پانڈے نے کہا کہ ہمارے آپریٹنگ رولز کے سیکشن 82 میں ترمیم کی بات ہوئی ہے۔ ہماری اسمبلی کی زبان ہندی اور دیوناگری رسم الخط کو اس میں 282 کے تحت رکھا گیا تھا۔ بڑی جدوجہد کے بعد یہ دن آیا کہ آزادی کے بعد ہم اپنی دیوناگری رسم الخط اور ہندی زبان میں بات کر سکتے تھے۔ آج اس میں ترمیم کی جارہی ہے۔ میں ترمیم کے خلاف نہیں ہوں۔ ہم نے کل بھی بات کی تھی اور آج پھر بات کر رہے ہیں۔ آپ کو ہماری مقامی بولی رکھنی چاہیے۔ ہمارے آئین میں یہ بھی ہے کہ ہم کوئی بھی زبان بول سکتے ہیں لیکن انگریزی ہماری زبان نہیں ہے۔ انگریزی ہماری مادری زبان نہیں ہے۔ نہ ہی ہماری ثقافتی زبان ہے۔ ہم نے اسے اس میں رکھنے پر اعتراض کیا تھا۔

پانڈے نے مزید کہا کہ اسی تناظر میں میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ اسے بنانے جارہے ہیں تو اس میں سنسکرت کا اضافہ کریں اور اردو کو بھی شامل کریں۔ ہم نے کل کہا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے سنسکرت نہیں سنی اور اردو پر بہت سنگین الزامات لگائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ کٹھ ملا پیدا کرتے ہیں۔ ہم آپ کے ذریعے جاننا چاہتے ہیں کہ گورکھپور میں اردو کے ایک عظیم ماہر اور اردو شاعر رگھوپتی سہائے فراق  کٹھ ملا تھے۔ کیا منشی پریم چند گورکھپور کے اسکول میں استاد تھے،انھوں نے اردو میں ناول لکھے، کیا وہ کٹھ ملا تھے۔ کیا یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبہ جات  میں زیر تعلیم   طلباء  کٹھ ملا ہیں؟ کیا عربی فارسی یونیورسٹی بنائی گئی ہے اس کے طلبہ  کٹھ ملا ہیں؟

سماج وادی پارٹی کے علاوہ کانگریس اقلیتی محکمہ کے سر براہ عمران پرتاپ گڑھی نے بھی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ اردو زبان کے سلسلے میں نا زیبا الفاظ پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے اپنے ایکس ہینڈل پر لکھا کہ  اردو کی محبت میں رام پرساد ’’بسمل‘‘، اردو کی محبت میں رگھوپتی سہائے ’’فراق گورکھپوری‘‘ بن گئے۔برجنارائن ’’چکبست‘‘، پنڈت ہری چند ’’اختر‘‘، سمپورن سنگھ کالرا ’’گلزار‘‘ بن گئے۔وہ اردو جس میں بھگت سنگھ خطوط لکھتے تھے، وہ اردو جسے گاندھی جی خود ہندوستانی زبان کہتے تھے، وہ زبان جسے نہرو اور پٹیل پسند کرتے تھے۔جس زبان نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا، جس زبان نے جئے ہند کا نعرہ دیا، جس زبان میں محبت اور بغاوت کے گیت گائے گئے، آج ایک ریاست کا سربراہ اسی زبان کو کٹھ ملوں کی زبان کہہ رہا ہے۔انہوں نے آخر میں اردو کے معروف شاعر آنند نارائن ملا کے ایک شعر سے سوال کیاکہ کوئی انہیں بتائے کہ اردو ‘کٹھ ملا’ کی نہیں آنند نارائن ‘ملا’ کی زبان ہے۔’ملا’  بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ۔ایک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی :-آنند نارائن ملا۔خیال رہے کہ وزیر اعلیٰ نے ایوان میں بجٹ سیشن میں اردو زبان کو کٹھ ملا اور مولوی کی زبان قرار دے کر شدید تنقید کی تھی جس پر اردو حلقوں میں شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا ۔