ادے پور فائلز معاملہ: اظہاررائے کی آزادی کے نام پر مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی جاسکتی
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا سخت تبصرہ، فلم سے تمام قابل اعتراض مناظر ہٹادئے گئے،سینسر بورڈ کے وکیل کا دعوی،فلم کی اسکریننگ کے بعد حتمی سماعت کل

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی،9 جولائی:۔
متنازعہ فلم ادے پور فائلز پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ۔ سماعت کے دوران گرچہ عدالت عظمیٰ نے فلم کی ریلیز اور اسکریننگ پر پابندی عائد کرنے سے انکار کر دیا مگر آج دہلی ہائی کورٹ میں ہوئی سماعت میں عرضی گزار کی جانب سے فلم کے جن متعدد مناظر پر اعتراض کیا گیا تھا اس پر سنجیدگی سے غور کیا گیا اور قابل اعتراض مناظر ہٹائے گئے ۔
دہلی ہائی کورٹ میں‘ادے پور فائلز’ نامی فلم کی نمائش کے خلاف داخل شدہ پٹیشن پر جب سماعت شروع ہوئی تو جمعیۃ علمائ ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے سب سے پہلے چیف جسٹس دیوندر کمار اپادھیائے اور جسٹس انیش دیال کے سامنے اپنا موقف رکھا اور کہا کہ یہ ایک ایسی فلم ہے جس میں ایسے ایسے قابل اعتراض مناظر دکھا ئے گئے ہیں جو ایک مخصوص قوم کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ہیں اور ان سے سماج میں منافرت اور مذہبی شدت پسند ی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کی قابل اعتراض فلم تیار کرنا اور عوامی طور پر اس کی نمائش ملک کے آئین کے رہنما اصولوں کے صریح خلاف ہے۔اس پر سینسر بورڈ کے وکیل نے کہا کہ فلم سے ایسے تمام مناظر پہلے ہی نکال دیئے گئے ہیں جن پر اعتراض ہوسکتا ہے۔فلم میں اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس پر کسی کو اعتراض ہو۔اس دلیل پر مسٹر کپل سبل نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی تصدیق کس طرح کی جاسکتی ہے کہ قابل اعتراض مناظر انہوں ٹریلر سے ہٹائے ہیں یا فلم سے۔اور یہ کہ اس بات پر کس طرح یقین کیا جائے اب اس فلم میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے سینسر بورڈ اور مذکورہ فلم کے پروڈیوسر کے وکلاءکو یہ ہدایت کی کہ مدعی کے وکلاءکو مکمل فلم دکھائے جانے کا بندوبست کیا جائے۔فلم پروڈیوسر کے وکیل چیتن شرما نے عدالت سے فلم کی اسکریننگ غیر جانبدار شخص کی موجودگی میں کیئے جانے کی گذارش کی ، جس پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ فلم کو چیلنج عرضی گذار نے کیا ہے اور یہ ان کا آئینی حق ہے۔ پروڈیوسرکے وکیل نے پھر اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ اسکریننگ کے بعد بھی یہ لوگ فلم پر اعتراض کرسکتے ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جیساکہا جارہا ہے کہ ویسا کرو۔اگر اسکریننگ کے بعد بھی کسی طرح کا اعتراض سامنے آتا ہے تو عدالت اس پر سماعت کرے گی۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آئین کی جو ہدایات ہیں اس پر عمل ہونا چاہیے اور اظہار رائے کی آزادی کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی مذہب یا قوم کی دل آزاری کی جائے۔
واضح رہے کہ یہ فلم ادے پور میں ہوئے ایک شخص کے قتل کو بنیاد بناکر تیار کی گئی ہے۔26 جون کو اس کا ایک ٹریلر جاری ہوا ہے۔جس میں انتہائی قابل اعتراض مناظر دکھائے گئیے ہیں۔اس میں دیوبند اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی گئی ہے۔نوپور شرما کے ذریعہ دیئے گئے اشتعال انگیز بیانات کو بھی رکھا گیا ہے۔ٹریلر کو دیکھنے سے ہی یہ واضح ہوجاتا کہ فلم کا مقصد ایک مخصوص مذہبی طبقے کو منفی اور متعصبانہ انداز میں پیش کرنا ہے۔ان تمام باتوں کی بنیاد پر مولانا ارشد مدنی کی جانب سے اس فلم کی نمائش کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں ایک اہم پٹیشن داخل کی گئی تھی جس پر آج سماعت ہوئی۔فلم کی اسکریننگ کے بعد حتمی سماعت کل ہوگی۔