احمد آباد:600 سال پرانی درگاہ پر شدت پسند ہندو گروپ کا حملہ ، قبریں مسمار اور مورتیاں نصب
گزشتہ منگل کو ووٹنگ کے دوران سخت سیکورٹی کے باوجود ہوا حملہ،چار زخمی،30 افراد گرفتار جن میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ
نئی دہلی ،10 مئی :۔
لوک سبھا انتخابات کی تشہیر کے دوران بی جے پی رہنماؤں خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ کھلے عام عوامی جلسوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کا اثر اب معاشرے میں نظر آنے لگا ہے۔گزشتہ پہلے مرحلے کی پولنگ کے اختتام کے بعد وزیر اعظم نے اپنے مختلف ریاستوں میں پروگرام میں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جس کا اثر ہے کہ سماج میں ہندو شدت پسند مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار ہو گئے ہیں۔گزشتہ منگل کو گجرات میں تیسرے مرحلے کے لئے پولنگ ہوئی دریں اثنا منگل کی رات دیر گئے احمد آباد کے مضافات میں واقع امام شاہ باباکی پرانی درگاہ میں ایک ہندو شدت پسندوں کا ہجوم داخل ہوا اور نعرے لگاتے ہوئے وہاں موجود قبروں اور مزار کو توڑ دیا اور جگہ کو برابر کر دیا۔
قریب موجود مسلم گاؤں پیرانہ گاؤں میں رہنے والے مسلمانوں کو جب اس بے حرمتی کا علم ہوا تو وہ درگاہ پہنچے۔اس دوران ہندو بھی پہنچے اور پتھراؤ ہوا۔ اس کے بعد وہاں تشدد شروع ہو گیا۔ پتھراؤ سے 4 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ دریں اثنا انتظامیہ نے اس معاملے میں کارروائی کرتے ہوئے تقریباً 30 افراد کو حراست میں لیا جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔
خیال رہے کہ یہ درگاہ 600 سال پرانی ہے اور ہندو مسلم ہم آہنگی کی علامت رہی ہے۔ منگل کو ہی گجرات میں 25 لوک سبھا سیٹوں کے لیے ووٹنگ ہوئی تھی اور پورے احمد آباد ضلع میں پولیس کو تعینات کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود سماج دشمن عناصر کو فرقہ وارانہ واقعات کو انجام دینے کی اجازت دی گئی۔یہی نہیں وہاں درگاہ پر بھگوا جھنڈے بھی لگا دیئے گئے ہیں اور مندر کی طرح سجا دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق، احمد آباد کے ایس پی اوم پرکاش جاٹ نے کہا، "درگاہ کے ٹرسٹ میں ہندو اور مسلم کمیونٹی کے افراد موجود ہیں۔ یہاں مندر کو لے کر کافی عرصے سے تنازعہ چل رہا ہے۔ بدھ کی صبح دونوں برادریوں کے لوگ اس اطلاع کے بعد جمع ہو گئے کہ قبروں میں توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے۔ کشیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس موقع پر پہنچی تو پتھراؤ شروع ہوگیا۔ واقعے میں ایک انسپکٹر سمیت چار سے پانچ افراد زخمی ہوئے۔ کسی کو کوئی بڑی چوٹ نہیں آئی۔”
پیرانہ گاؤں کے رہائشی اظہر سعید نے کہا کہ”ہم نے قبروں کو مسمار کرنے پر اعتراض کیا اور بحالی کا مطالبہ کیا۔ پولیس افسران نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ قبروں کی دوبارہ تعمیر کرائیں گے۔ وہ صبح سے ہی وعدہ کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی عمل نہیں ہوا ہے،”
واضح ہو کہ 600 سال پرانی اس درگاہ میں 2022 میں ایک دعویٰ سامنے آیا تھا جب کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ یہ پریرنا پیٹھ ایک نشکلکی مندر ہے۔ تاہم وہاں پر سید خاندان کے افراد کی قبریں سینکڑوں سال پرانی ہیں۔ لیکن اب اس درگاہ کے حوالے سے عدالت میں مندر اور درگاہ کا مقدمہ چل رہا ہے۔ عدالتوں میں کئی الگ الگ درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں۔