اجمیر پولیس نے مسلم صحافی واجد خان کو فلسطین کے حق میں ٹویٹ کرنے پر گرفتار کر لیا

نئی دہلی ،11 اکتوبر :۔

حکومت اور انتظامیہ کی جانب سےاکثر ایسی آواز کو دبانے اور خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں فیکٹ چیکر اور آلٹ نیوز کے شریک بانی  صحافی محمد زبیر پر ایف آئی آر  درج کیا گیا تھا اور اب   اجمیر پولیس نے 10 اکتوبر ایک اور مسلم صحافی کو گرفتار کر لیا ہے۔جہاں صحافی محمد زبیر نے یتی نرسمہا نند کے ذریعہ گستاخ رسول کے بیان کو منظر عام پر لانے کا الزام عائد کیا گیا تھا وہیں صحافی واجد خان پر شوشل میڈیا پر فلسطین کی حمایت پر کرنے پر اشتعال انگیز پوسٹ کرنے کا الزام عائد کر کے گرفتار کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پولیس نے واجدخان پر مبینہ طور پر سوشل میڈیا پورٹل ‘ایکس’ پر  اشتعال انگیز مواد پوسٹ کرنے کا الزام کیا گیا ہے  اور ایک مقامی سوشل میڈیا صارف کی طرف سےفرقہ وارانہ ہم آہنگی تباہ کرنے کی  شکایت موصول ہونے کے بعد کارروائی کی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسے گانل پولیس اسٹیشن نے گرفتار کر لیا ہے اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کا موبائل فون ضبط کر لیا گیا ہے۔ محکمہ اب ان لوگوں کی شناخت کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے جنہوں نے اس کی پوسٹ کو لائک کیا۔

واجد خان کی گرفتاری کے خلاف سوشل میڈیا صارفین نے آواز بلند کی ہے  ٹویٹر کے صارفین، فالوورس  اور اقلیتی برادریوں کے بیدار لوگوں نے حمایت کی ہے،  اس دوران ایکس پر   #IStandWithWajidKhan ٹرینڈ بھی سامنے آیا۔

دریں اثنا گیگل پولیس اسٹیشن نے اس کارروائی کو  جائز ٹھہرانےکے لیے ایک پریس ریلیز بھی جاری کی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 24 سالہ نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اجمیر پولیس ان لوگوں کے خلاف ‘ٹریس کرنے اور کارروائی کرنے’ کے لیے  تیار  ہے۔

واجد خان کو ’بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہیتا‘ کے آرٹیکل 170 کے تحت گرفتار کرتے ہوئے، محکمہ پولیس نے ایس پی، آئی پی ایس وندیتا رانا کی نگرانی میں ’اس کے فون کی تحقیقات‘ کے بارے میں بھی مطلع کیا ہے۔

حالانکہ ابھی معاملہ ایک تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کر دیا گیا ہے اور محکمہ پولیس نے واضح کیا کہ وہ ان لوگوں کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں جو ‘اس طرح کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں’ لیکن جیسا کہ یہ کارروائی شکایت کے جواب میں ہوئی ہے، کچھ مظاہرین نےاسکی طرف اشارہ کیا ہے۔ اجمیر پولیس پر  ہندوتو تنظیموں کے دباؤ میں کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اور کچھ نے اس واقعے کے پیچھے @randomsena کے کردار  کی بھی نشان دہی کی ہے۔