اتر پردیش میں پولیس حراست میں موت کے متواتر واقعات پر اٹھ رہے ہیں سوالات  

پندرہ دنوں کے اندر مسلسل دو لوگوں کی پولیس حراست میں موت کے معاملے پر اپوزیشن یوگی حکومت پر حملہ آور

نئی دہلی ،لکھنؤ،29 اکتوبر :۔

اتر پردیش میں پولیس حراست میں موت کے واقعات مسلسل  سامنےآ رہے ہیں۔ پولیس بےلگام ہو چکی ہے اور ریاستی حکومت کارروائی کے نام پر  خانہ پری کر رہی ہے۔   انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے، لیکن ریاستی حکومت کی صحت  پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت نہیں بلکہ پولیسیا سرکار چل رہی ہے۔ پولیس اتنی بے لگام ہو چکی ہے کہ وہ ریاست کی راجدھانی لکھنؤ جہاں پر سرکار بیٹھی ہے وہاں پر بھی پولیس کو سرکار کا کوئی خوف نہیں ہے۔پولیس تھانون میں لائے گئے لوگوں کو حراست میں مار دیا جا رہا ہے اور خانہ پری کر کے معاملوں کو رفع دفع کر دیا جا رہاہے۔

گزشتہ 11 اکتوبر کو لکھنو ک وکاس نگر میں ایک 24 سالہ نوجوان امن گوتم کو پولیس پکڑتی ہے اور تھانے پر لاتی ہے۔ پولیس نے اس کو اتنا مارا اور پیٹا کہ امن گوتم کی پولیس حراست میں موت ہو گئی۔امن گوتم کی موت کے بعد پولیس نے اپنا دفاع کرتے ہوئے طبیعت خراب ہونے کی کہانی گڑھی ۔

امن گوتم کی موت کے بعد لواحقین اور رشتہ داروں میں زبر دست ناراضگی پیدا ہو گئی انہوں نے پولیس کی کہانی کو قبول کرنے سے انکار کر یا ۔اہل خانہ کا کہنا ہے کہ امن گوتم بھیم راؤ امبیڈکر پارک میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے گیا تھا،پولیس اس کو جبراً پکڑ کر لے گئی اور اس کو بعد میں جوئے کے اڈے سے پکڑنے کی کہانی بیان کی ۔اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس نے امن گوتم کو اتنا مارا اور پیٹا کی اس کی موت ہو گئی ۔اس کی موت کے بعد پولیس نئی کہانی بیان کر رہی ہے۔

امن گوتم کی موت کے بعد معاملہ سنگین ہو گیا ۔امن کی بیوہ بیوی نے تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 11 اکتوبر کو میرے شوہر قریب کے پارک میں گھومنے گئے تھے پولیس نے انہیں وہاں سے گرفتار کیا ۔پوچ گچھ کے نام پر مار پیٹ کی گئی جس سے وہ بے ہوش ہو گئے۔ پولیس انہیں اٹھا کر لے گئی ۔وہاں پر موجود لوگوں نے بتایا کہ پولیس اہلکار شیلیندر سنگھ اور اس کے ساتھ تین دیگر پولیس اہلکار موجود تھے جنہوں نے امن کو پیٹا جب وہ بے ہوش ہو گیا تو گھبرا کر اس کو اسپتال میں داخل کرا دیا۔

امن گوتم کی موت کے سلسلے میں پولیس کی تمام کہانیوں کو سیاسی رہنماؤں اور اہل خانہ نے مسترد کر دیا ہے ۔ اہل خانہ کا مطالبہ ہے کہ اس معاملے کی جانچ سی بی آئی سے کرائی جائے۔

پولیس حراست میں ہی ایک دوسرا معاملہ لکھنؤ کے تھانےچنہٹ کا ہے یہاں پر بستی جین آباد ساکن تاجر موہت کمار پانڈے کی موت ہو گئی ۔ یہاں پر دو فریقوں میں تنازعہ ہو گیا تھا ۔ پولیس دونوں فریق کو لےکر چنہٹ تھانے گئی ۔بعد میں پولیس نے ایک فریق کو چھوڑ دیا اور دوسری فریق کے موہت پانڈے کو تھانے میں ہی روک لیا۔ پولیس نے موہت کمار پانڈے کو جم کر پیٹا جس سے اس کی موت ہو گئی ۔پولیس نے فوری طور پر اس کو لوہیا اسپتال میں داخل کرا دیا ۔موہت کی موت تھانے میں ہی ہو گئی تھی لیکن پولیس نے اپنے دفاع میں موہت کو لوہیا اسپتال میں داخل کرایا۔اہل خانہ کو جب موہت کے موت کی اطلاع ملی تھی تو وہ اسپتال پہنچے لیکن پولیس نے انہیں اندر جانے سے روک دیا ۔پولیس حراست میں موت کے معاملہ پر یوگی حکومت اپوزیشن کے نشانے پر ہے۔

لگا تا ر ہو رہی اموات پر سماج وادی پارٹی ،کانگریس  اور مایا وتی نے یوگی حکومت پر حملہ بولا ہے ۔تمام اپوزیشن جماعتوں نے کہا کہ یوگی حکومت میں پولیس کی حراست میں محض پندرہ دنوں میں دو اموات ہو گئیں ،یہ عوام کی حفاظت کرنے والے خود عوام کی جان کیلئے خطرہ بن چکے ہیں ۔

یوگی حکومت نے معاملے کو بڑھتا دیکھ کر موہت پانڈے کے اہل خانہ سے ملاقات کر کے امداد فراہم کی ہے اور دیگر سرکاری سہولتوں کا وعدہ کر کے معاملے کو ٹھنڈہ کرنے کی کوشش کی ہے۔