اتر پردیش میں مدارس کے ذمہ داران کو خوف زدہ کرنے کی کوشش  ، جانچ کا ایک اور حکم

کر آمدنی، ملکیت اور ایف سی آر اے رجسٹریشن وغیرہ کی معلومات مہیا کرانے کی ہدایت دی،تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ تفصیلات پہلے ہی مدرسہ پورٹل پر موجودہے،پریشان کرنے کی کوشش قرار دیا

نئی دہلی ،04 اگست :۔

اتر پردیش حکومت نے ایک بار پھر مدارس کے ذمہ داران کو پریشان کرنا شروع کر دیا ہے ۔تمام تفصیلات اور رپورٹیں مدرسہ پورٹل پر دستیاب ہونے کے باوجود بتایا جا رہا ہے کہ اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی جانب سے ریاست کےتمام ضلع اقلیتی بہبود افسران کو مکتوب بھیج کر  فعال مدرسوں  سے تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ خاص کر آمدنی، ملکیت اور ایف سی آر اے رجسٹریشن وغیرہ کی معلومات مہیا کرانے کی ہدایت دی گئی ہے۔جبکہ  اساتذہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ مانگی گئیں بہت ساری اطلاعات مدرسہ پورٹل پر پہلے سے موجود ہیں اور بار بار اس طرح کی تفصیلات اکٹھا کرنا، مدارس سے وابستہ افرادکوخوفزدہ کرنےکے مترادف ہے۔

روزنامہ انقلاب کی رپورٹ کے مطابق یوپی مدرسہ بورڈ کے رجسٹرار آرپی سنگھ نے سبھی ضلع اقلیتی بہبود افسران کوبھیجے گئے مکتوب میں یوپی محکمہ اقلیتی بہبود کےڈائریکٹر انکت کمار اگروال کے اس خط کا حوالہ دیا ہے جس کے ذریعے ریاست میں قائم/ فعال مدارس کے بارے میں کچھ اہم نکات پر مبنی معلومات طلب کی گئی ہیں۔ رجسٹرار نے اپنے مکتوب کے ساتھ ایک گوگل شیٹ منسلک کی ہے اور اسی فارمیٹ پر مطلوبہ معلومات دستیاب کرائے جانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ توقع کی گئی ہے کہ تمام متعلقہ معلومات مدرسہ بورڈ کے دفتر کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائے۔ سبھی ضلع اقلیتی بہبود افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے ضلع میں چلنے والے مدرسوں کی تعداد، نام، پتہ، گرام/محلہ، پولیس اسٹیشن، تحصیل، مدرسہ کی منظوری مستقل ہے یا عارضی، مدرسہ منظورشدہ ہے یا غیر منظورشدہ، جیسی تفصیلات مہیا کرائیں۔ مذکورہ سبھی تفصیلات کے ساتھ ان مدرسوں کی فہرست الگ سے تیارکرنی ہے جن کا ایف سی آراے (فارین کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ) رجسٹریشن نہیں ہے اور ایسے مدرسوں کی آمدنی و تعمیراتی کاموں میں غیرمعمولی اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ ان مدرسوں کی معلومات بھی فراہم کرانی ہے جنھوں نےاپنے طلبہ سے فیس یا چندہ لیا ہے۔ مدرسوں کی تزئین کاری اور فرنیچرس پر کتنا خرچ کیا گیا ہے۔ یہ تفصیلات بھی دینی ہے۔

جن مدارس کی منظوری کی تجدید کے لئےدرخواستیں موصول ہوئی ہیں ان کا نام، مدرسہ کا پتہ، منیجر کا نام، مدرسہ کا رقبہ، سرکل ریٹ کے اعتبارسے مدرسہ کے زمین کی قیمت، کل کمروں کی تعداد، عمارت کی تعمیرمیں لاگت وغیرہ کی معلومات بھی درج کرنی ہے۔ مذکورہ مدرسوں کی جملہ تفصیلات کے ساتھ ان کی سوسائٹی کے رجسٹریشن کی معلومات بھی دینی ہے تاکہ ان کی مدت کار اور ان کی نوعیت کی وضاحت ہوسکے۔ جملہ مطلوبہ معلومات گوگل شیٹ پر بغیر کسی کالم کو ضم کئے انگریزی رسم الخط میں درج کی جانی ہے۔

حکومت کی جانب سے طلب کی گئیں مذکورہ معلومات کے حوالےسے اساتذہ تنظیموں نے اعتراض ظاہر کیا ہے اورحکومت کی منشا پر سوالات کھڑے کئے ہیں۔ آل انڈیا ٹیچرس ایسوسی ایشن کے قومی نائب صدر مولانا طارق شمسی کا کہنا ہے کہ اس قسم کی معلومات پہلے سے بھی خفیہ ایجنسیاں پچھلے کئی سال سے یکجا کر رہی ہیں۔ مدارس کو مشکوک بنانے اور ان کی دینی و تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں عوام کو شک و شبہ میں مبتلا کرنے کے لئےیہ سب کیا جا رہا ہے۔ یہ سبھی طریقے مدارس کو ہراساں اور خوفزدہ کرنے کے لئے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ ان کا سوال ہے کہ کیا دیگر تعلیمی اداروں بالخصوص گروکل اور عیسائی مشنریوں کا ڈیٹا بھی اسی طرح یکجا کیا جارہا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ دستوری حقوق کی پامالی کا معاملہ ہے۔ حکومت کسی خاص مذہبی طبقہ کے ساتھ امتیازی سلوک اختیار نہیں کر سکتی۔ یہ آئینی حقوق سے متصادم ہے۔ جو بھی ادارے ہیں وہ قانونی دائرہ میں اپنے دینی، تعلیمی و تربیتی مقاصد کے تحت کام کر رہے ہیں۔