اتر پردیش حکومت کا مدرسوں کو یونیور سٹی بنا کر منسلک کرنے کا منصوبہ ،اہل مدارس میں تشویش

اقلیتی بہبود کے وزیر راج بھر کے بیان کے بعد موضوع بحث،اقلتیوں کومذہبی ادارے چلانے کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا

نئی دہلی،12 اگست:۔

اتر پردیش میں مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے مدارس کے سلسلے میں ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔ در اصل  اتر پردیش کے اقلیتی بہبود کے وزیر اوم پرکاش راج بھر نے مدارس کی شناخت کو لے کر ایک نیا سوشہ چھوڑ دیا ہے۔انہوں نے   ریاست میں مدارس کی  شناخت کے لئے   نیا نظام شروع کرنے کی تیاریوں کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ دو یونیورسٹیاں کھول کر مدارس کو ان سے منسلک کیا جائے گا۔ تا ہم وزیر موصوف کے بیان کے بعد اہل مدارس میں تشویش پائی جا رہی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ آئین میں ملے اقلیتوں کے حقوق کے خلاف ہے۔

رپورٹ کے مطابق وزیر راقلیتی بہبود راج بھر نے کہا کہ ‘نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کی جانب سے جو خط آیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ایسے مدارس جو بچوں کو پڑھا رہے ہیں لیکن ان کے پاس بچوں کو تعلیمی سرٹیفکیٹ دینے کی شناخت نہیں ہے، وہ بچے ان میں پڑھنے والے کو نکال کر گورنمنٹ کونسل سکولوں میں داخل کیا جائے،(خط میں) بس اتنا ہی ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے اس سال 7 جون کو ریاستی حکومت کو ایک خط لکھا تھا۔ ریاست کے اس وقت کے چیف سکریٹری درگا شنکر مشرا نے کمیشن کے اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے 26 جون کو ایک حکم نامہ جاری کیا تھا، جس میں ریاست کے سرکاری امداد یافتہ مدارس میں پڑھنے والے غیر مسلم بچوں اور غیر تسلیم شدہ مدارس کے تمام بچوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ ان کا کونسل کے اسکولوں میں داخل کرایا جائے۔ تاہم معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا جس نے ان احکامات پر فی الحال روک لگا دی۔

اقلیتی بہبود کے وزیر راج بھر  کا کہنا ہے  ا، ‘ہماری کوشش دو یونیورسٹیاں کھولنے کی ہے۔ ہم ریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو یونیورسٹی کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں اور تمام مدارس کو وہاں (یونیورسٹی سے) تسلیم کیا جائے گا، تاکہ مستقبل میں کوئی تنازعہ نہ ہو۔ راج بھر نے کہا، ‘لکھنؤ یونیورسٹی، پوروانچل یونیورسٹی، شکنتلا یونیورسٹی آپ کے سامنے ہے، جہاں سے کئی اسکول چلتے ہیں۔

دریں اثناء جمعیۃ علماء ہند کے قانونی مشیر مولانا کعب راشدی نے کہا کہ اگر حکومت مدارس کی پہچان کے نظام میں تبدیلی کرنے جا رہی ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن اس سے پہلے اسے جمعیۃ علماء  ، ندوۃ العلماء اور دارالعلوم دیوبند سمیت تمام فریقوں سے بات چیت کی جائے اور مشورہ لیا جائے۔

راشدی نے یہ بھی کہا، ’’آئین اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق دیتا ہے۔ ریاستی حکومت مدارس کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں جو انتظامات کرنے جا رہی ہے، اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ اقلیتوں کے آئینی حقوق کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے۔

اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید نے کہا، “ریاستی حکومت مدارس کے حوالے سے اتنا بڑا قدم اٹھانے جا رہی ہے لیکن بورڈ کو اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ایک ایجوکیشن کونسل کا کسی یونیورسٹی سے الحاق ہو گا، ایسی بات پہلے کبھی نہ دیکھی اور نہ سنی۔

تاہم جاوید نے کہا کہ حکومت کے پاس نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرنے کا اختیار ہے لیکن غیر تسلیم شدہ مدارس کے بچوں کو کونسل اسکولوں میں داخل کرنے کے احکامات جاری کرنے سے پہلے ایسے مدارس کو بورڈ سے تسلیم کرنے پر غور کرنا چاہیے تھا۔

واضح رہے کہ اتر پردیش میں تقریباً 25,000 مدرسے چل رہے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 16,500 مدارس کو بورڈ نے تسلیم کیا ہے، جب کہ تقریباً 8,500 مدارس کو مدرسہ بورڈ نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ تسلیم شدہ مدارس میں سے 560 کو حکومت سے گرانٹ ملتی ہے۔