اترکاشی مسجد معاملہ : ہندوتو رہنما کی حکومت کو15 جنوری 2025 تک مسجد ہٹانے کا انتباہ
کالی سینا نامی شدت پسند ہندو تنظیم کے رہنما آنند سوروپ مہاراج نے علاقے میں غیر ہندوؤں کے داخلہ پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا
نئی دہلی ،28 اکتوبر :۔
ملک میں ہندوتوا بریگیڈ کے ذریعہ مساجد کے خلاف چل رہی سازش اور مسلمانوں کے تئیں نفرت کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ہماچل پردیش سے شروع ہوئی مساجد کے خلاف ہندوتو تنظیموں کی مہم اب اتراکھنڈ میں بھی زور پکڑنے لگی ہے۔اترا کاشی میں واقع مسجد کے تنازعہ کے معاملے میں اب ایک شدت پسند ہندو رہنما کا اشتعال انگیز بیان سامنے آیا ہے۔حکومت سے 15 جنوری 2025 تک اتر کاشی مسجد کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے زور دار تحریک شروع کرنے کا انتباہ دیا گیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق کالی سینا نامی شدت پسند ہندوتنظیم کے قومی صدر مہامنڈلیشور سوامی آنند سوروپ مہاراج نے ایک بیان دیا ہے جس میں اتراکھنڈ حکومت سے گزارش کی ہے کہ ہمالیائی علاقہ میں غیر ہندوؤں کے داخلے پر پابندی عائد کی جائے، اور اس کے لیے انھوں نے 12 جنوری 2025 تک کا وقت دیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اترکاشی واقع مسجد کو 15 جنوری 2025 تک ہٹایا جائے، ایسا نہیں ہوا تو زوردار تحریک چلائی جائے گی۔
سوامی آنند سوروپ مہاراج کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ حکومت نے اگر اتراکھنڈ کے ہمالیائی علاقہ میں غیر ہندوؤں کے جانے پر روک نہیں لگائی تو زبردست تحریک چلائی جائے گی۔ یہ تحریک اتنی زوردار ہوگی کہ سرکاری مشینری کی کوششوں کے بعد بھی نہیں رکے گی۔ ہریدوار میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کالی سینا صدر نے یہ باتیں کہی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ دیو بھومی اتراکھنڈ میں لو جہاد، تھوک جہاد، لینڈ جہاد جیسے تمام جہاد سامنے آ رہے ہیں اور یہ حکومت کی لاپروائی کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہریدوار اور رشی کیش میں 1915 میں ایک قانون نافذ کیا گیا تھا جس کے تحت یہاں پر غیر ہندوؤں کا مستقل طور سے رہنا، ان کی زمین خریدنا یا دیگر ملکیت خریدنا غیر قانونی ہے۔ یہ اصول ب بھی نافذ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اتراکھنڈ حکومت اس قانون کو وسعت دے اور اسے پوری ریاست میں نافذ کیا جائے۔