اترکاشی مسجد تنازعہ: ہائی کورٹ نے تمام مذہبی مقامات پر امن و امان برقرار رکھنے کی ہدایت دی

 مسجد کی سیکورٹی کو لے کر دائر درخواست پر سماعت - ہائی کورٹ نے ڈی جی پی سے 27 نومبر تک صورتحال کے بارے میں رپورٹ طلب کی

نئی دہلی ،نینی تال، 22 نومبر:

اترا کھنڈ میں مساجد کو لے کر ہندوتو نوازوں کی جانب سے جاری ہنگامہ آرائی پر آج نینی تال ہائی کورٹ نے اہم ہدایات جاری کی ہے۔در اصل اترا کھنڈ میں ہندوتو تنظیموں کی جانب سے آئے دن کسی نہ کسی مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے اسے منہدم کرنے کے مطالبات کئے جا رہے ہیں ،ہنگامہ کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف  نفرت کی ایک مہم شروع کر دی گئی ہے۔حالیہ دنوں میں متعدد مساجد کے خلاف اس طرح کے ہنگامے کئے گئے جس میں اترکاشی کے بھٹواری روڈ پر واقع مسجد بھی شامل ہے۔آج مسجد تنازعہ کے معاملے میں مسجد کی حفاظت کو لے کر دائر عرضی کی سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے ضلع مجسٹریٹ اور ایس ایس پی اترکاشی کو تمام مذہبی مقامات پر امن و امان برقرار رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ عدالت نے ڈی جی پی کو 27 نومبر تک صورتحال سے آگاہ کرنے کوبھی  کہا ہے۔ اس کیس کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس منوج کمار تیواری اور جسٹس راکیش تھپلیال کی ڈویژن بنچ کے سامنے ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق  کیس کے مطابق اترکاشی کی  الپ سنکھیک سیوا کمیٹی نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ 24 ستمبر سے کچھ تنظیمیں بھٹواری روڈ پر واقع سنی برادری کی مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے منہدم کرنے کی دھمکی دے رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے دونوں برادریوں میں تناو  کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اس لیے ریاستی حکومت کو مسجد کی حفاظت کے احکامات دئیے جائیں۔

درخواست میں کہا کہ یہ مسجد قانونی ہے۔ یہ مسجد 1969 میں زمین خرید کر بنائی گئی تھی۔ 1986 میں، وقف کمشنر نے اس کا معائنہ کیا اور مسجد کو درست پایا۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات دینا سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ نے تمام ریاستوں کو حکم دیا ہے کہ اگر کسی ذات، مذہب یا برادری کے خلاف کوئی اشتعال انگیز بیان کا سہارا لیا جائے تو ریاستی حکومت براہ راست مقدمہ درج کرے، لیکن اب تک ریاستی حکومت نے اس معاملے میں کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا ہے۔ ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی بھی کی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں وشو ہندو پریشد کی کال پر دیو بھومی وچار منچ نے 25 نومبر کو تحصیل سطح پر مسجد کے خلاف میمورنڈم اور یکم دسمبر کو مہاپنچایت کا اعلان کیا ہے۔ مسلم کمیونٹی کی جانب سے اشتیاق احمد، انور بیگ، ناصر شیخ اور نصیر خان نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے گزشتہ پیر کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جس مسجد کو غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے اس کے پاس اراضی کی رجسٹری سے لے کر مسترد شدہ داخلوں تک تمام قسم کے کاغذات موجود ہیں جو اس نے پہلے ضلع انتظامیہ کے حوالے کر دیے تھے۔ مذکورہ مسجد 1982 کے میونسپل ریکارڈ کے ساتھ ساتھ 1986 میں وقف بورڈ یوپی میں رجسٹرڈ ہے جو اس وقت اتراکھنڈ وقف بورڈ دہرادون کے تحت آتا ہے۔۔