اترپردیش:  مسلم ٹیچرکے اسکول سے  معطل کئے جانے پر طالبات پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں

  تنویر عائشہ پر تلک لگانے کی اجازت نہ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے معطل کر دیا گیا  ہے،روتے بچوں کو سمجھاتی رہیں

نئی دہلی ،28 اگست :۔

اتر پردیش کے بجنور میں ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر کی معطلی  پر طالبات پھوٹ پھوٹ کر روتی نظر آئیں ۔اسکول چھوڑ کر جا رہی مسلم ٹیچر کے لئے تمام طالبات روتی رہیں اور ان سے منتیں کرتی رہیں کہ آپ اسکول چھوڑ کر نہ جاؤ ۔یہ نظار انتہائی جذباتی تھا جہاں ایک ٹیچر سے اس کے طلبا کی جذبات لگاؤ قابل دید تھی ۔

معاملہ اتر پردیش کے بجنور ضلع میں واقع بھنیڑہ کے ایک سرکاری اسکول  کا ہے۔ جہاں ایک مسلم خاتون ٹیچر پر ہندو بچوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا گیا تھا۔ اسکول میں تعینات تنویر عائشہ پر الزام تھا کہ انہوں نے تلک لگا کر اسکول آنے والے ہندو بچوں کو تلک ہٹانے کو کہا۔  انہوں نے بچوں کو تلک لگائے بغیر اسکول آنے کی بات کی ۔اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ بیسک ایجوکیشن آفیسر یوگیندر کمار نے مسلم ٹیچر تنویر عائشہ کو معطل کر دیا تھا۔ جبکہ دیگر دو اساتذہ کی سالانہ تنخواہوں میں اضافہ روکنے کی ہدایات دی گئیں۔مسلم خاتون ٹیچر تنویر عائشہ 2 دن کی چھٹی کے بعد منگل کو اسکول آئیں اور معطل ہونے کے بعد اسکول سے گھر جانے لگیں تو اسکول میں موجود سینکڑوں بچوں نے انہیں گھیر لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔

ٹیچر اور طلبا کا یہ جذبات لگاؤ قابل دید تھا ۔وہ تمام طالبات ان کے راستے میں آ گئیں اور ان کو گھیر کر نہ جانے کی منتیں کرنی لگیں اور دہاڑیں مار مار کر روتی رہیں ۔اس  پورے معاملے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبات اپنے ٹیچر کو گھیرے ہوئی ہیں ۔تنویر عائشہ کو بچوں کو پیار کرتے اور سمجھاتے ہوئے دیکھا  جا سکتا ہے۔ اس دوران کچھ بچے یہ کہتے بھی نظر آئے کہ اب ہم بھی ٹی سی کٹوائیں گے اور اسکول چھوڑ دیں گے۔ یہاں نہیں پڑھیں گے ۔ گیٹ پر پہنچنے والے بچوں نے گیٹ کو گھیر  کر ٹیچر کو روک دیا۔

ٹیچر عائشہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے تلک لگانے   کرکبھی کسی بچے کو آنے سے نہیں روکا اور یہ سارا معاملہ ایک سازش کے تحت رچا گیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ گاؤں کے کچھ لوگ ان سے ناراض تھے اور انہوں نے خود انہیں پھنسانے کی کوشش کی۔ اسکول کے ہیڈ ٹیچر راجندر کمار کا بھی کہنا ہے کہ ان کے سامنے ایسا کوئی کیس نہیں آیا اور یہ سب گاؤں کے کچھ لوگوں کی سازش کا نتیجہ ہے۔