اترپردیش: اپنی شادی کا رجسٹریشن کروانے پہنچے جوڑے کو بجرنگ دل کے کارکنوں نے پولیس کے حوالے کیا، تبدیلیِ مذہب کے نئے قانون کے تحت مقدمہ درج کروایا
نئی دہلی، دسمبر 7: این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق ایک مسلمان شخص اور اس کے بھائی کو اتر پردیش کے ضلع مراد آباد میں اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ ایک ہندو خاتون کے ساتھ اپنی شادی کا اندراج کروانے کی کوشش کر رہا تھا۔
ان پر اترپردیش کے نئے انسداد تبدیلیِ مذہب کے قانون کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں، جو ’’لوجہاد‘‘ پر مبنی ہے۔ ’’لو جہاد‘‘ ہندوتوا گروپوں کے ذریعہ استعمال کیا جانے والا ایک سازشی نظریہ ہے جو مسلمان مردوں پر شادی کے نام پر ہندو خواتین کو مسلمان بنانے کا الزام عائد کرتےہیں۔
بین المذاہب شادی کرنے والے اس جوڑے کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ دائیں بازو کے ایک گروہ بجرنگ دل کے ممبروں نے پولیس کے حوالے کیا۔ اس تنظیم کے کچھ ممبران مبینہ طور پر جمعہ کے روز مراد آباد کے کانتھ علاقے میں شادی رجسٹریشن کے دفتر پہنچے اور جوڑے کو رجسٹریشن کرنے سے روک دیا اور انھیں قریب کے پولیس اسٹیشن لے گئے۔
سوشل میڈیا پر ایک وسیع پیمانے پھیل رہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بجرنگ دل کے کارکن، جن کے گلے میں زعفرانی گمچھے ہیں، پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں اس خاتون سے پوچھ گچھ کررہی ہیں۔ ان میں سے ایک شخص خاتون سے پوچھتا ہے کہ ’’تم ہمیں اپنا مذہب تبدیل کرنے کے لیے ڈی ایم [ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ] کی طرف سے دیا گیا اجازت نامہ دکھاؤ۔ کیا تم نے نیا قانون پڑھا ہے یا نہیں؟‘‘
ایک اور شخص نے کہا کہ ’’یہ تم جیسے لوگوں کے لیے ہی بنانا پڑا ہے۔‘‘
"Law For Those Like You”: UP Hindu Woman Heckled, Muslim Husband Arrested
Read more: https://t.co/EnTvCQAcwd pic.twitter.com/ieUHGoZHHd
— NDTV (@ndtv) December 6, 2020
کانتھ کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر اجے گوتم نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ان دونوں افراد کو جمعہ کے دن خاتون کے اہل خانہ کی شکایت کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ شکایت اس خاتون کی والدہ نے دائر کی ہے، جس نے دعوی کیا ہے کہ مسلمان شخص نے اس کی بیٹی کو شادی کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے پر راضی کیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق ایک سینئر پولیس عہدیدار ودیا ساگر نے کہا ’’ہم نے دونوں افراد کو گرفتار کیا ہے اور اس کیس کی مکمل تحقیقات کریں گے۔‘‘
تاہم خاتون نے اس دعوے کی تردید کی اور کہا کہ وہ اپنی مرضی سے ملزم کے ساتھ ہے۔
اس نے نامہ نگاروں کو بتایا ’’میں ایک بالغ لڑکی ہوں، میری عمر 22 سال ہے۔ میں نے 24 جولائی کو اپنی مرضی سے شادی کی۔ ہماری شادی کو یہ پانچواں مہینہ ہے۔‘‘
مزید برآں اب تک یہ بھی واضح نہیں تھا کہ عورت یا مرد نے اپنا مذہب تبدیل کیا یا نہیں۔
دی ہندو کے مطابق نئے قانون کے تحت درج ہونے والا یہ پانچواں کیس ہے۔ اترپردیش کی گورنر آنندین پٹیل کے ذریعہ آرڈیننس نافذ کرنے کے صرف چند گھنٹوں بعد ہی پولیس نے 28 نومبر کو ریاست کے بریلی ضلع میں ایک مسلمان شخص کے خلاف پہلا مقدمہ درج کیا تھا۔ اویس احمد کو 3 دسمبر کو گرفتار کیا گیا تھا اور 14 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا تھا۔
اخبار کے مطابق اس کے بعد سے مزید سات افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور آٹھ کے خلاف سیتا پور میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جب کہ 14 افراد پر مئو میں اور دو پر مظفر نگر میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ قانون اس حقیقت کے باوجود منظور کیا گیا تھا کہ آدتیہ ناتھ کی اپنی انتظامیہ، اترپردیش کی خصوصی انوسٹی گیشن ٹیم، ’’لو جہاد‘‘ سے متعلق کوئی ثبوت اکٹھا کرنے میں ناکام رہی تھی اور انھیں بین المذاہب شادیوں میں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔