اترا کھنڈ: یو سی سی 2025 کو ہائی کورٹ میں چیلنج، ریاستی حکومت سے چھ ہفتوں میں جواب طلب

  مولاناارشد مدنی  کا شدید رد عمل کہا کہ یکساں سول کوڈ قانون لا کر موجودہ حکومت ملک کے آئین کے ذریعہ مسلمانوں کو دیئے گئے حقوق کو چھیننا چاہتی ہے

 

نئی دہلی ،نینی تال، 12 فروری :(دعوت ڈیسک)

اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے ذریعہ نافذ کردہ یکساں سول کوڈ (یو سی سی ) 2025 کو چیلنج کرنے والی پی آئی ایل کی سماعت کے بعد، حکومت کو چھ ہفتوں کے اندر اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس کیس کی سماعت چیف جسٹس نریندر اور جسٹس آشیش نیتانی کی ڈویژن بنچ کے سامنے ہوئی۔

کیس کے مطابق، بھیمتل کے رہائشی سریش سنگھ نیگی نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں یو سی سی کی مختلف دفعات کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں بنیادی طور پر ‘لیو ان ریلیشن شپ’ کی دفعات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یو سی سی میں مسلمانوں، پارسیوں وغیرہ کے ازدواجی نظام کو نظر انداز کرنے سمیت کچھ دیگر دفعات کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔

نیگی کی پی آئی ایل میں لیو ان ریلیشن شپ کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ عام شادی کے لیے لڑکے کی عمر 21 سال اور لڑکی کی 18 سال ہونی چاہیے، جب کہ لیو ان ریلیشن شپ میں دونوں کی عمریں 18 سال مقرر کی گئی ہیں اور ان کے ایک ساتھ پیدا ہونے والے بچے قانونی بچے کہلائیں گے یا انہیں جائز تصور کیا جائے گا۔

دوسری بات یہ کہ اگر کوئی شخص اپنے لیو ان ریلیشن شپ سے جان چھڑانا چاہتا ہے تو وہ رجسٹرار کو ایک سادہ درخواست دے کر 15 دن کے اندر اپنے ساتھی کو چھوڑ سکتا ہے۔ جبکہ ایک عام شادی میں طلاق لینے کے لیے پورے عدالتی عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور طلاق دہائیوں کے بعد ہوتی ہے اور وہ بھی پورا کفالت ادا کر کے۔ مجموعی طور پر ریاستی حکومت نے ان حقوق میں مداخلت کی ہے اور ان کی خلاف ورزی کی ہے جو ریاست کے شہریوں کو آئین کے تحت حاصل ہیں۔ آئین کی طرف سے ریاست کے شہریوں کو دیے گئے حقوق کو بھی یو سی سی میں نظر انداز کیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی دہرادون کے الماس الدین صدیقی کی طرف سے دائر درخواست میں اسلامی رسومات اور مذہبی روایات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت نے یو سی سی بل پاس کرتے وقت اسلامی رسوم، قرآن اور اس کی دیگر دفعات کو نظر انداز کیا ہے۔ مثال کے طور پر، قرآن اور اس کی آیات کے مطابق، شوہر کی موت کے بعد، بیوی 40 دن تک عدت میں رہتی ہے ۔ یو سی سی اس سے منع کرتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ شریعت کے مطابق اسلام میں رشتہ داروں کے علاوہ کسی سے بھی شادی کرنے کا انتظام ہے۔ یو سی سی میں اس کی اجازت نہیں ہے۔

تیسرا، شریعت کے مطابق جائیداد کے معاملے میں باپ اپنی جائیداد تمام بیٹوں میں تقسیم کر سکتا ہے اور اس میں سے کچھ حصہ اپنے لیے رکھ سکتا ہے اور جب چاہے اسے عطیہ کر سکتا ہے، جبکہ یو سی سی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے اس میں ترمیم کی جائے۔عدالت نے ریاستی حکومت کو ان درخواستوں میں اٹھائے گئے نکات پر تفصیلی جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔

مولانا ارشد مدنی

درخواست پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیة نے اس امید کے ساتھ عدالت سے رجوع کیا ہے کہ ملک کے آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں انصاف ملے گا۔ کیونکہ عدالت ہی ہمارا آخری سہارا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں مانتے ایک مسلمان ہر چیز پر سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن اپنی شریعت اور مذہب پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ یہ مسلمانوں کے وجود کا سوال نہیں ہے بلکہ ان کے حقوق کا سوال ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یکساں سیول کوڈ قانون لا کر موجودہ حکومت ملک کے آئین کے ذریعہ مسلمانوں کو دیئے گئے حقوق کو چھیننا چاہتی ہے۔ کیونکہ ہمارے عقیدے کے مطابق ہمارے مذہبی قوانین کسی انسان کے نہیں بلکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ ملک میں ان لوگوں کے لیے ایک متبادل سول کوڈ پہلے سے موجود ہے جو کسی مذہبی پرسنل لائ  پر عمل نہیں کرنا چاہتے۔ پھر یونیفارم سول کوڈ کی کیا ضرورت ہے؟

انہوں نے کہا کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ آئین میں شہریوں کو دیئے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ سوال مسلمانوں کے پرسنل لاءکا نہیں ہے بلکہ ملک کے سیکولر آئین کو اس کی موجودہ حالت میں برقرار رکھنے کا ہے۔ کیونکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور آئین میں سیکولرازم کا مفہوم یہ ہے کہ ملک کی حکومت کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے اور ملک کے لوگ اپنے مذہب کی پیروی کرنے میں آزاد ہیں، اس لیے یکساں سول کوڈ مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہے اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔