اترا کھنڈ میں دینی مدارس اور مساجد کے خلاف کارروائی پر مسلمانوں کا احتجاج

 پورے اترا کھنڈ میں ایسے 200؍مدارس کی شناخت کی گئی ہے جو بغیر رجسٹریشن کے  چلائے جا رہے ہیں،تصدیق کا حکم

نئی دہلی07 مارچ :۔(دعوت ویب ڈیسک)

یو پی میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کی طرف سے چلائی جا رہی دینی مدارس کے خلاف مہم کی پیروی اب اترا کھنڈ حکومت بھی کر رہی ہے ۔اس سلسلے میں تسلیم شدہ اور غیر تسلیم شدہ دونوں مدارس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔اترا کھنڈ میں وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی قیادت میں حکومت مسلمانوں کو مختلف محاذوں پر نشانہ بنا رہی ہے ۔گزشتہ روز انتظامیہ نے دہرا دون کے پانچ  دینی مدارس کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں سیل کر دیا ہے ۔ حکومت کی اس کارروائی کے خلاف ریاست کے مختلف اضلاع میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر اپنا احتجاج درج کرایا اور اس کارروائی کی مخالفت میں مقامی حکام کو میمورنڈم پیش کیا ۔اترا کھنڈ میں مدارس کے خلاف کی جانے والی حکومت کی کارروائیوں نے یہاں کے مسلمانوں کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ۔ مقامی انتظامیہ  وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مدارس کی جانچ کر رہی ہے کہ وہ قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں یا نہیں ۔لیکن گزشتہ دنوں دہرہ دون کے وکاس نگر میں پانچ  دینی مدارس کو حکومت نے سیل کر دیا ۔حکومت کا الزام ہے کہ یہ مدارس پرمٹ کے بغیر چلائے جا رہے تھے ۔اسی طرح ڈھکرانی علاقے میں ایک مسجد کو بھی سیل کیا گیا ہے ۔اس بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر غیر قانونی طریقے سے کی گئی تھی ۔حکومت کا کہنا ہے کہ پورے اترا کھنڈ میں ایسے ۲۰۰؍مدارس کی شناخت کی گئی ہے جو بغیر رجسٹریشن کے  چلائے جا رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے ایسے تمام مدارس کا ویری فکیشن کرنے کا حکم دیا ہے۔اس پہلے ہریدوار میں چل رہے ۳۰ ؍مدارس کے رجسٹریشن کو منسوخ کر دیا گیا تھا ۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام مدارس کی جانچ کی جائے گی اور ان کی فنڈنگ کے بارے میں پتہ لگایا جائے گا ۔ دھامی حکومت کی ان کارروائیوں پر مسلم تنظیموں بشمول مسلم سیوا تنظیم اور جمعیت علمائے ہند نے اپنے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔اسے امتیازی اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے حکام سے باضابطہ احتجاج درج کرایا ہے ۔احتجاج کرنے والے لیڈروں میں سے ایک نے کہا ہے کہ یہ کارروائی قانونی ضابطوں کے خلاف کی گئی ہے ۔انتظامیہ مسلم اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے قانون کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔یہ ایسی  چیز ہے جسے ہم برداشت نہیں کریں گے ۔اس ضمن میں اترا کھنڈ انتظامیہ نے رجسٹریشن اور مطلوبہ دستاویزات کی عدم فراہمی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی کارروائی ریاست میں مدارس کی بڑی تحقیقات کا حصہ تھی ۔تاہم مسلمانوں نے ان دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس کے خلاف یہ کارروائیاں سیاسی مقصد کے تحت کی جا رہی ہیں تاکہ مدارس کی مذہبی شناخت کو ختم کیا جا سکے ۔

خیال رہے کہ اترا کھنڈ میں مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن سے متعلق تنازع ملک میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ایک وسیع بحث بن چکا ہے ۔کئی حالیہ واقعات سے مسلمانوں میں یہ خدشات گھر کر گئے ہیں کہ انہیں   تعلیمی اعتبار سے پسماندہ کرنے کی ایک منظم سازش کی جا رہی ہے ۔حکومت کے اس رویئے کے بارےمیں مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ حکومت پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے ۔یہ مدارس صرف مذہبی تعلیم سے متعلق نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری کمیونٹی کے لیے لائف لائن ہیں ۔حکومت نے انہیں بند کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں بتائی ہے ۔ مسلم تنظیموں نے اس مسئلے کو احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ساتھ اس کو قانونی طریقے سے بھی لڑنے کی بات کہی ہے ۔ واضح رہے کہ اترا کھنڈ وقف بورڈ کے تحت ۴۱۵ مدارس رجسٹرڈ ہیں جس میں تقریباً ۴۶ ہزار بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔