اترا کھنڈ: مسلم دکانداروں اور کرایہ داروں کو بے دخل کرنے کی دھمکی
دہرادون پولیس نے شدت پسند ہندو تنظیم کالی سینا کے خلا ف ایف آئی آر درج کیا
![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/Sanatani1.jpg)
نئی دہلی،11 فروری :۔
اترا کھنڈ میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے اعلان کے بعد اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔شدت پسند ہندو تنظیموں اور ارکان کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں اور وہ مسلم دکانداروں اور کرایہ داروں کو بلا خوف بے دخلی کی دھمکی دے رہے ہیں۔مقامی طور پر علاقے میں لگنے والے بازار سے مسلم دکانداروں کو باہر کر رہے ہیں ۔سناتنی بازار کا بورڈ لگا کر مسلم دکانداروں کو بازار سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔حالیہ دنوں میں اس سلسلے میں ایک ویڈیو بھی وائرل ہوا تھا جس میں نعرے بازی کرتے ہوئے شدت پسندوں کا گروپ نظر آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں اب پولیس نے شکایت کے بعد ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز اتوار (9 فروری) کو دہرہ دون پولیس نے بتایا کہ ایک دائیں بازو کی تنظیم ‘کالی سینا‘ کے کم از کم پانچ ارکان کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کرنے اور مقامی لوگوں کو مسلم کرایہ داروں کو بے دخل کرنے کی اپیل کرنے اور دکانداروں پر حملہ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، کالی سینا کے ارکان کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق، یہ واقعہ 4 فروری کو پیش آیا جب 50-60 لوگوں کے ایک گروپ نے ایک دن پہلے ایک نابالغ کے ساتھ جنسی استحصال کی مخالفت میں صبح 11 بجے کے قریب نتھو والا علاقے میں ایک میٹنگ کی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے، ‘اس میٹنگ کے دوران انہوں نے لوگوں کو اکسایا، (جنسی استحصال کے کیس کو) فرقہ وارانہ رنگ دیا اور اشتعال انگیز تقریریں کیں، مقامی لوگوں سے علاقے میں رہنے والے یا کاروبار چلانے والے دیگر کمیونٹی کے کرایہ داروں پر حملہ کرنے اورانہیں بے دخل کرنے کی اپیل کی گئی۔ اس کے بعد انہوں نے نتھو والا سے ڈونالی تک مارچ کیا اور دوسری برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی دکانوں کے سائن بورڈ اور بینرز توڑ ڈالے۔
پانچ فروری کو شام تقریباً 4.30 بجے تنظیم کے اراکین نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ڈونالی تیراہہ میں ایک اور جلسہ عام کا اہتمام کیا، جہاں انہوں نے مقامی لوگوں کو اکٹھا کیا اور انہیں اکسایا۔
بالاوالا پولیس چوکی کے انچارج سب انسپکٹر سنجے راوت کی شکایت پر درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے،’انہوں نے مکان کے مالکان اور دکان کے مالکان کو دوسری برادریوں کےکرایہ داروں کو فوراً بے دخل کرنے کی دھمکی دی اور کہا کہ اگر سات دنوں کے اندر ایسا نہیں کیا گیا تو وہ انہیں زبردستی ہٹا دیں گے۔ اسی دن بعد میں انہوں نے لوئرتون والا میں ایک پرائمری اسکول کے قریب ہفتہ وار بازار سے مسلمان دکانداروں کو زبردستی باہر نکال دیا۔ مبینہ طور پر انہوں نے بازار کو ‘سناتنی’ قرار دیا۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے،’انہوں نے دوسری برادریوں کے دکانداروں کے ساتھ بدسلوکی کی اور ان پر حملہ کیا، انہیں خبردار کیا کہ وہ مستقبل میں دکانیں نہ لگائیں اور اگر واپس آنے پر انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی… اس کے علاوہ، کئی ویڈیو بنائے گئے جن میں اشتعال انگیز تقریریں ریکارڈ کی گئیں۔ اس میں کہا گیا کہ اشتعال انگیز تقاریر سے علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔
ایف آئی آر میں بھوپیش جوشی اور ان کے ساتھیوں ویبھو پنوار، اجئے کیپٹن، آچاریہ وپل بنگوال اور ریٹائرڈ فوجی راجندر سنگھ نیگی اور دیگر کو ملزم بنایا گیا ہے۔