اترا کھنڈ: ریپ کا شکار نابالغ بچیوں کو مالی امداد سے زیادہ انصاف کی ضرورت
جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی 72؍ نابالغ حاملہ بچیوں کو ماہانہ چار ہزار روپے کی امداد دینے کا اعلان،سنگین جرم کو مالی امداد کے ذریعے سستے طریقے سے حل کرنے کی کوشش

مشتاق عامر
نئی دہلی ،06 مئی :۔
اتر کھنڈ میں یکساں سول کوڈ جیسے متنازعہ قانون کو نافذ کرنے کے بعد ریاستی حکومت نے ایک اور حساس فیصلہ کیا ہے ۔اس فیصلے کےبعد ریاست میں ریپ کے بڑھتے واقعات پر لگام لگانے کے بجائے اس کو اور بڑھا وا مل سکتا ہے ۔ریاست کی پشکر سنگھ دھامی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ریپ کے نتیجے میں حاملہ ہونے والی نابالغ بچیوں کو ہر ماہ چار ہزار روپئے کی مالی امداد فراہم کرے گی ۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت اترا کھنڈ میں 72؍ ایسی نابالغ بچیاں ہیں جو ریپ کا شکار ہونے کے بعد حاملہ ہوئی ہیں ۔ سرکاری فیصلے کے مطابق ان بچیوں کو 23؍ سال کی عمر تک ہرماہ چار ہزار روپئے کی مالی امداد مہیا کرائی جائے گی ۔اتنے حساس مسئلے پر اس طرح کے فیصلے نے کئی طرح کے سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔اس معاملے میں دھامی حکومت کا سارا زور ریپ کا شکار بچیوں کو انصاف دلانے کے بجائے ان کو مالی امداد فراہم کرنے پر ہے ۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی بچیوں کو سماجی اور حکومتی سطح پر ہر ممکن مالی اور اخلاقی مدد کی سخت ضرروت ہوتی ہے ۔لیکن ریپ جیسے سنگین اور گھناونے جرم پر روک لگانے اور ریپ متاثرہ کو انصاف دلانے کے بجائے اس مسئلے کو مالی امداد کے ذریعے سستے طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ظاہر ہے کہ اس میں متاثرہ کو انصاف دلانے کی منشا کم اور سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش زیادہ نظر آ رہی ہے۔
ریاست میں ریپ کے بعد حاملہ ہونے والی نابالغ بچیوں کی تعداد 72؍ بتائی جا رہی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچیوں کو ہوس کا شکار بنانے والے کتنے درندوں کو ریاستی حکومت اب تک سزا دلا پائی ہے ؟ آخر اس گھناونے جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرمین کے خلاف اترا کھنڈ حکومت نے کیا قانونی اقدامات کئے ہیں اور یہ کہ ان بچیوں کے مقدمات عدالتوں میں کہاں تک پہنچے ہیں؟ ۔ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے کون لوگ ہیں اور ان کو اب تک کتنی سزائیں ملی ہیں ؟ ریاستی حکومت کو ان سوالوں کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ سارے اعداد و شمار منظر عام پر لانے چاہئے ۔حکومت پہلا کام جرائم کو کنٹرول کرنا اور اس کے مرتکب افراد کو قانون دائرے میں لانا ہے ۔اترا کھنڈ کی دھامی حکومت ابھی تک ایسے اعداد و شمار پیش نہیں کر پائی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ ریپ کا شکار ہونے والی 72؍ نا بالغ بچیوں کے گناہ گاروں کا کیا انجا م ہوا ۔ ایسے حساس معاملوں میں مالی امداد سے زیادہ انصاف کی ضرورت ہے۔ متاثرہ بچیوں کو انصاف ملنا چاہئے ، ریپ کا معاوضہ نہیں ۔ اگر ریپ جیسے سنگین معاملوں کو مالی امداد کے ذریعے دبانے کا کام کیا جائے گا تو انصاف کا قتل ہو جائے گا ۔مالی امداد کے اعلان کے ساتھ ساتھ اترا کھنڈ حکومت کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ متاثرہ بچیوں کو عدالت سے انصاف کہاں تک ملا ہے یا عدالتوں میں ان کے کیس کن مراحل میں ہیں ۔ریپ کے معاملوں میں اب تک کتنے لوگوں کو سزائیں ہوئیں اور کتنے ہیں جو قانون کے گرفت سے باہر ہیں ۔اس سلسلے میں اتراکھنڈ کی خواتین اور بچوں کی ترقی (WCD) کی وزارت نے اعلان کیا ہے کہ ریاست میں ریپ سے متاثرہ نابالغ حاملہ کو ماہانہ 4000 روپے کی مالی امداد دی جائے گی۔ محکمے کے ڈائریکٹر پرشانت آریہ نے کہا کہ ریاست میں ایسی 72 متاثرین کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ امداد صرف نابالغ متاثرین کو دی جائے گی اور انہیں بھی جو محکمہ سے مالی مدد کے لیے رجوع کریں گے۔ اس کے لیے مرکز کی جانب سے ہر ضلع کے لیے 10 لاکھ روپے کا بجٹ منظور کیا گیا ہے۔
حکومت پہلا کام جرائم کو کنٹرول کرنا اور اس کے مرتکب افراد کو قانون دائرے میں لانا ہے ۔اترا کھنڈ کی دھامی حکومت ابھی تک ایسے اعداد و شمار پیش نہیں کر پائی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ ریپ کا شکار ہونے والی 72؍ نا بالغ بچیوں کے گناہ گاروں کا کیا انجا م ہوا ۔ ایسے حساس معاملوں میں مالی امداد سے زیادہ انصاف کی ضرورت ہے۔ متاثرہ بچیوں کو انصاف ملنا چاہئے ، ریپ کا معاوضہ نہیں ۔ اگر ریپ جیسے سنگین معاملوں کو مالی امداد کے ذریعے دبانے کا کام کیا جائے گا تو انصاف کا قتل ہو جائے گا ۔
پرشانت آریہ نے کہا کہ یہ امداد زچگی، نوزائیدہ بچوں اور شیر خوار بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دی جائے گی یہاں تک کہ متاثرہ لڑکی کی عمر 23 سال ہو جائے۔ اگر متاثرہ لڑکی بچے کی پرورش نہیں کرنا چاہتی تو بچے کو مرکزی ایڈاپشن ریسورس اتھارٹی (CARA) کے ضابطے کے تحت چائلڈ کیئر انسٹیٹیوشن (CCI) میں 18 سال کی عمر تک رکھا جا سکتا ہے۔ بچے کی پرورش ریاستی چائلڈ ہوم میں کی جائے گی جہاں آدھار کارڈ اور پیدائش کا رجسٹریشن جیسے ضروری دستاویزات بھی تیار کیے جائیں گے۔ پرشانت آریہ کا کہنا ہے کہ کچھ متاثرین اس وقت اپنے خاندانوں کے ساتھ رہ رہی ہیں اور دیگر حکومتی اسکیموں کے تحت مالی امداد حاصل کر رہی ہیں۔ تاہم یہ نئی اسکیم خاص طور پر ان نابالغ متاثرین کے لیے ہے جو جنسی زیادتی کا شکار ہوئی ہیں اور حاملہ ہیں اور جن کے کیسز پاکسو ایکٹ کے تحت آتے ہیں۔ آریہ نے کہا کہ ریاستی حکومت متاثرین کو بھر پور مالی مدد فراہم کرے گی جس میں نفسیاتی کونسلنگ، قانونی مدد، طبی سہولیات، تعلیمی امداد، اور پولیس سے رابطہ شامل ہوگا۔
اترا کھنڈ ملک کی ان چند ریاستوں میں سے ہے جہاں جنسی جرائم سب سے زیادہ رکارڈ کئے گئے ہیں ۔حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف 2022 میں اتراکھنڈ میں 1,321 سنگین جرائم رپورٹ ہوئے اور ان میں سب سے زیادہ 872 مقدمات جنسی زیادتی کے تھے ۔ ریاست میں جنسی زیادیتوں کا شکار ہونے والے خواتین کے لیے 13؍ سال پہلے ایک اسکیم لائی گئی تھی جسےThe Uttarakhand Victim from Crime Assistance Scheme, 2013 کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس اسکیم کے تحت ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کو دو لاکھ روپئے تک کی مالی امداد دینے کا بندوبست کیا گیا تھا ۔پشکر سنگھ دھامی حکومت نے اسی اسکیم کا سہارا لے کر اس میں ان نابالغ بچیوں کو بھی شامل کر لیا ہے جو ریپ کے بعد حاملہ ہو ئی ہیں۔جبکہ کہ نابالغ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادی انتہائی حساس معاملہ ہے ۔اس کا تعلق مالی امداد سے کم بلکہ یہ سیدھے طور سے ریاست کے لا اینڈ آرڈر سے جڑا ہوا معاملہ ہے ۔ اگر ریاست میں بچیاں محفوظ نہیں ہیں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات بڑھ رہے ہیں تو اس کو کا حل مالی مدد نہیں بلکہ جرم میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہے ۔ متاثرہ بچیوں کو انصاف دلانے اور اس جرم میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرروت ہے ۔ اترا کھنڈ حکومت کے اس فیصلے سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں ایسا انہ ہو کہ یہ گھناونا جرم بھی سرکار کی مالی امداد کے بوجھ تلے دب کر نہ رہ جائے ۔