اترا کھنڈ :اترکاشی مسجد کے خلاف  شدت پسند ہندو تنظیموں کا پر تشدد مظاہرہ ، متعدد زخمی

مسجد کو سرکاری زمین پر تعمیر ہونے کا دعویٰ کر تے ہوئے سنیوکت سناتن دھرم رکشک سنگھ کی قیادت میں احتجاج ،پتھراؤ کے بعد پولیس نےلاٹھی چارج کیا،27 افراد زخمی

نئی دہلی ،دہرادون25 اکتوبر :۔

ہماچل پردیش میں مسجد کے خلاف شروع ہوئی ہندو شدت پسندوں تنظیموں کی مہم اب اترا کھنڈ میں بھی پہنچ گئی ہے۔اب پورے ملک میں مساجد کے خلاف شدت پسند تنظیموں کا ایک ہی بیانیہ سیٹ کر دیا ہے کہ مسجد غیر قانونی ہے اور سڑکوں پر بھیڑ لے کر اتر گئے ۔ ہماچل سمیت اتراکھنڈ میں بھی یہی دیکھنے کو مل رہاہے ۔

اترکاشی میں جمعرات شدت پسندوں نے ایک  مسجد کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا۔یہ احتجاج اس وقت پر تشدد ہو گیا جب پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی اور بیرکیڈنگ لگا دیا۔مظاہرین نے بڑی تعداد میں نعرے بازی کرتے ہوئے  ہائی وے جام کر دیا اور راستہ بلاک کر کے ہنگامہ شروع کر دیا ۔  مظاہرے کے دوران پولیس نے بھیڑ کو قابو کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔ 7 پولیس اہلکاروں سمیت 27 افراد زخمی ہوئے۔ ہندو تنظیم نے مسجد کو گرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سرکاری زمین پر تعمیر کی گئی ہے۔  آج شدت پسندوں کے ذریعہ بند کی اپیل کی گئی تھی جس کی وجہ سے اتر کاشی کے بازار بند رہے۔

مظاہرین کا الزام ہے کہ براہاٹ علاقے میں بنائی گئی مسجد سرکاری زمین پر بنائی گئی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے واضح کیا کہ مسجد پرانی ہے اور مسلم کمیونٹی کے لوگوں کی زمین پر بنائی گئی ہے۔ مظاہرین مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے انتظامیہ نے گنگوتری نیشنل ہائی وے پر رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ اس کے بعد مظاہرین ہائی وے پر ہی دھرنے پر بیٹھ گئے اور ہنومان چالیسہ کا ورد کرنے لگے لیکن جب انہوں نے رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی تو مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی ہو گئی۔

ایک سینئر پولیس افسر کے مطابق، زیر بحث مسجد، جو اترکاشی قصبے میں واقع ہے، قانونی طور پر مسلم کمیونٹی کے ممبران کے نام درج زمین پر تعمیر کی گئی  ہے۔

سنیوکت سناتن دھرم رکھشک سنگھ کی قیادت میں ہونے والے اس احتجاج کا مقصد مسجد کو منہدم کرنے کا مطالبہ کرنا تھا۔ اترکاشی کے پولیس سپرنٹنڈنٹ امیت سریواستو نے اطلاع دی کہ یہ واقعہ دوپہر ڈھائی بجے کے قریب پیش آیا۔ اگرچہ احتجاج کے لیے پہلے سے طے شدہ راستہ قائم کیا گیا تھا اور رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں، تاہم مظاہرین نے مسجد تک پہنچنے کے لیے اپنا راستہ تبدیل کرنے پر اصرار کیا۔ جب پولیس نے رکاوٹیں کھولنے سے انکار کر دیا، تو کشیدگی بڑھ گئی، جس کے نتیجے میں ہاتھا پائی اور پتھراؤ شروع ہو گیا جب افسران نے بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔

اس سال کے شروع میں، مسجد کی قانونی حیثیت کا پتہ لگانے کے لیے ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی گئی تھی۔ انتظامیہ نے جواب دیا کہ ان کے پاس مطلوبہ دستاویزات کی کمی ہے۔ اس کے بعد اترکاشی کے ضلع مجسٹریٹ کو ایک میمورنڈم پیش کیا گیا جس میں مسجد کو منہدم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

6 ستمبر کو، دائیں بازو کی مختلف تنظیموں کے اراکین نے ضلع مجسٹریٹ کے دفتر کے باہر دھرنا دیا، جس میں مسجد کو گرانے کے لیے تین دن کا الٹی میٹم دیا گیا۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر ان کے مطالبات پر توجہ نہ دی گئی تو وہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔

9 ستمبر کو، سنیکت سناتن دھرم رکھشک سنگھ نے ضلع مجسٹریٹ مہربان سنگھ بشٹ کو ایک اور یادداشت پیش کی، جس میں الزام لگایا گیا کہ مسجد کو ریونیو ریکارڈ میں درج نہیں کیا گیا اور اس کے انہدام کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔

صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔ آج جمعہ کی وجہ سے پولیس الرٹ رہی اور شدت پسندوں کے ذریعہ بند کی اپیل کی وجہ سے اترا کاشی مارکیٹ بھی پوری طرح سے بند رہی ۔دکانیں نہیں کھلیں اور ہر طرف سناٹا چھایا رہا۔