اتراکھنڈ: 41 مزدوروں کو بچانے والے منا قریشی اور ان کی ٹیم نے مالی مدد لینے سے انکار کر دیا
نئی دہلی،30نومبر :
اترا کھنڈ میں گزشتہ 17 دنوں سے ٹنل میں پھنسے 41 مزدوروں کو کامیابی کے ساتھ باآخر باہر نکال لیا گیا ۔پورے ملک کی نظریں اس ریسکیو آپریشن پر ٹکی ہوئی تھیں ۔اس ریسکیو آپریشن میں کلیدی کردار ادا کرنے والے 29 سالہ منا قریشی کو اس آپریشن میں ایک ہیرو کے طور پر سراہا جا رہا ہے ۔جب تمام مشینیں ناکام ہو گئیں، تو منّا جیسے ’ریٹ مائنر‘ کی دستی ڈرلنگ 12 نومبر سے پھنسے ہوئے کارکنوں کو نکالنے میں کامیاب ہو گئی۔
منا قریشی کی ٹیم کو بارہ میٹر چوڑا ملبہ ہٹانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ وہ ان ریٹ ہول مائنر میں سے ایک تھے جنہیں دہلی سے اتراکھنڈ لایا گیا تھا۔
ریٹ ہول مائنر وہ لوگ ہوتے ہیں جو زمین میں اتنے چھوٹے سوراخ کھودتے ہیں کہ کوئی شخص نیچے اتر کر کان سے کوئلہ اکٹھا کر سکے۔ تاہم یہ تکنیک غیر قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہے لیکن آخر کار ا سی تکنیک نے پھنسے ہوئے مزدوروں کو باہر نکالنے میں کامیابی حاصل کر لی۔
اکتالیس مہاجر مزدور آٹھ ریاستوں سے تھے۔ وہ سلکیارا-برکوٹ سرنگ کھودنے کے لیے رات کی شفٹ میں کام کر رہے تھے اسی دوران حادث کا شکار ہو گئےتھے ۔دہلی کے راجیو نگر کے رہنے والے منا قریشی 41 پھنسے ہوئے کارکنوں سے ملنے والے پہلے شخص تھے۔
قریشی ‘ریٹ ہول مائنرس کی ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ ان کی کمپنی گٹر اور پانی کی لائنیں کھودنے کا کام کرتی ہے۔قریشی اور ان کی ٹیم نے اپنے ہاتھوں سے ملبہ صاف کیا اور پھنسے ہوئے کارکنوں کے لیے راستہ صاف کیا۔
منا قریشی نے بتایا کہ منگل کو جب انہوں نے آخری چٹان ہٹائی تو 41 مزدور نے انہیں گلے لگالیا، تالیاں بجائیں اور شکریہ ادا کیا۔
منا نے بتایا کہ اس نے ملبہ ہٹانے اور کارکنوں تک پہنچنے کے لیے مسلسل 24 گھنٹے کام کیا۔ وہ 2.6 فٹ چوڑے اسٹیل پائپ کے اندر کھدائی کرتے رہے۔انہوں نے کہا کہ میں اپنی خوشی کا اظہار نہیں کر سکتا۔ میں نے یہ کام اپنے ساتھی کارکنوں کے لیے کیا ہے۔ اس نے ہمیں جو عزت دی ہے اسے نہیں بھول سکتا۔
وکیل حسن ریٹ ہول مائننگ ٹیم کے ٹیم لیڈر تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے 24×7 کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک وہ ان سب کو باہر نہیں نکال لیتے۔ انہوں نے کہا کہ دو ‘ ریٹ ہول مائنر پائپ میں کھدائی کر رہے تھے جبکہ چار ملبہ صاف کر رہے تھے۔منا قریشی کے علاوہ ٹیم کے دیگر ممبران میں فیروز قریشی، مونو، راشد، ارشاد اور ناصر شامل تھے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق دہلی میں قائم نجی کمپنی ‘راک ویل’ کے لیے کام کرنے والے کان کنوں نے یہ آپریشن بھارتی فوج کی نگرانی میں کیا۔ٹیم لیڈر وکیل حسن نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ انہیں طویل سیوریج اور پانی کی پائپ لائنیں بچھانے کے لیے چھوٹی سرنگیں کھودنے کا سابقہ تجربہ تھا لیکن اتنے بڑے پیمانے پر کھدائی کا تجربہ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ دہلی، راجستھان، یوپی اور دیگر ریاستوں میں کام کر چکے ہیں۔ ریسکیو آپریشن کے ساتھ یہ ان کی پہلی اسائنمنٹ تھی۔ 4.5 کلو میٹر لمبی سلکیارا-برکوٹ ٹنل بنانے والی تعمیراتی کمپنی نو یوگ نے وکیل حسن کو اس کام کے لیے نوکری کی پیشکش کی۔ انہوں نے اس آپریشن کے لیے پیسے لینے سے انکار کر دیا کیونکہ یہ ان کے ‘ہم وطنوں’ کے لیے تھا۔