اتراکھنڈ  کےفرقہ وارانہ نفرت کی نئی نرسری  بننے پر سابق نوکر شاہوں کا وزیر داخلہ کو خط

سو سے زیادہ ریٹائرڈ نوکر شاہوں نے حکومتی رویہ اور نظام کو امن و ہم آہنگی  والی ریاستوں میں فرقہ وارانہ منافرت اور مذہبی تشدد  کی حوصلہ افزائی  میں اہم وجہ قرار دیا

نئی دہلی،31اکتوبر :۔

اترا کھنڈ ریاست ماضی میں مذہبی ہم آہنگی کے لئے معروف تھی لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے مذہبی منافرت کی ایسی ہوا چلی کہ یہ خوبصورت ریاست بھی فرقہ وارانہ تشدد کی فیکٹری بنتی جا رہی ہے۔ہندو سماج کے مذہبی رہنما اور سادھو سنت جو روحانیت کا درس دیتے تھے اب متعدد ایسے سنت کی صورت میں نفرت اور اشتعال انگیز بیان دے رہے ہیں جس سے ریاست کا ماحول فرقہ وارانہ اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کی نرسری میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور اس میں بہت حد تک حکومت کا رویہ اور نظام ہے جو ان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔

اس سلسلے میں سول سوسائٹی کو تشویش ہے انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ دی وائر کی رپورٹ کے مطابق  سو سے زیادہ ریٹائرڈ نوکرشاہوں  کے ایک گروپ نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک خط لکھا ہے، جس میں اتراکھنڈ اور شمالی ہندوستان کی کچھ دیگر ریاستوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق، خط میں کہا گیا ہے کہ حکومتی نظام اور رویے کی وجہ سے پرامن اورہم آہنگی والی ریاستوں میں فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔خط میں اتراکھنڈ کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہاں اقلیت اور اکثریت کے درمیان تصادم کی نئی شکل منفی اشارہ دیتی ہے۔

معلوم ہو کہ کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ کی جانب سے  لکھے گئے اس خط میں سابق نوکرشاہوں کا کہنا ہے کہ کچھ سال پہلے تک اتراکھنڈ امن، ہم آہنگی اور ماحولیاتی سرگرمی کی اپنی روایات کے لیے جانا جاتا تھا اور یہاں کبھی بھی اکثریتی جارحیت نظر نہیں آتی تھی۔ تاہم، حالیہ دنوں میں اتراکھنڈ کی سیاست میں جان بوجھ کر فرقہ پرستی کا زہر گھولا جا رہا ہے، تاکہ نفرت کی ایک نئی نرسری تیار کی  جا سکے۔ یہ ایک منظم کوشش ہے، جس میں اقلیتوں کو اکثریت کی ماتحتی  قبول کرنے کو مجبور کیا جا رہا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں حالات کو بدتر بنانے والے فرقہ وارانہ واقعات کے حوالے سےلاقانونیت اور بدنظمی کا  دورچل رہا ہے ، جہاں نفرت پھیلانے کے الزام میں ضمانت پر رہا ہونے والے لوگ بھی اپنی ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

سابق نوکرشاہوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے حالیہ برسوں میں عوامی پالیسی، گورننس اور سیاست میں آئینی اقدار کی منظم تنزلی پر اکثر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔سابق نوکرشاہوں  نے کہا، ‘اکثر  دیکھا گیا ہے کہ کئی حکومتوں کے رویے نے معاشرے میں ان عناصر کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی ہے جو فرقہ پرستی اور تشدد کو جنم دیتے ہیں۔ یہ اکثریت پسند نظریاتی طور پر نفرت، بائیکاٹ اور تقسیم کی سیاست پر اپنے آپ کو قائم رکھتے  ہیں۔ اتر پردیش، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور راجستھان میں ایسے عناصر پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

خط میں اتراکھنڈ کے کچھ  فرقہ وارانہ واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں 10 ستمبر 2024 کو دہرادون پریس کلب میں کی ایک ہیٹ اسپیچ بھی شامل ہے، جس کےوائرل ویڈیو میں یتی رام سوروپانند کو مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں کو اقلیتی برادری کے لوگوں سے خواتین اور بچوں کی حفاظت کے لیے ہتھیار رکھنا چاہیے۔

معلوم ہو کہ اس سے قبل  12 اگست 2024 کے بعد ریاست کے دہرادون سے چمولی سمیت کئی اضلاع میں نفرت انگیز تقاریر اور پرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس میں املاک کو نقصان پہنچانا اور مبینہ طور پر اقلیتی خاندانوں کو نقل مکانی کے لیے مجبور کرنا، معاشی بائیکاٹ  کرناوغیرہ شامل ہیں، جس کے لیے کچھ مٹھی بھر لوگ اور تنظیمیں ذمہ دار ہیں۔

سابق نوکرشاہوں نے اس  کے پیچھے بجرنگ دل اور راشٹریہ سیوا سنگٹھن کا نام لیا ہے۔ ان کے مطابق مہاپنچایتوں اور دھرم سنسدوں کا انعقاد ریاست میں تشدد اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو جنم دے رہا ہے۔سابق نوکرشاہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس نفرت انگیز مہم کو نہیں روکا گیا تو یہ حساس سرحدی ریاست منظم تشدد کے ایک شیطانی چکر میں پھنس سکتی ہے جس کے سنگین مضمرات ہو سکتے ہیں۔خط میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ اتراکھنڈ پولیس سے پوچھا جانا چاہیے کہ وہ یتی نرسنہانند اور دیگر کے ذریعے ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کے معاملات میں ضمانت رد کرنے  کا مطالبہ کرنےمیں کیوں ناکام رہی ہے۔

خط کے اخیرمیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خط لکھنے والے گروپ کا کسی سیاسی جماعت یا دوسری تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صرف ریاست کے تئیں اس تشویش میں مبتلا ہے کہ امن اور شہری ہم آہنگی کی اپنی روایات کے لیے جانا جانے والا اتراکھنڈ تشدد کا ایک اور اکھاڑہ نہ بن جائے۔