اتراکھنڈ کی دھامی حکومت کامسلم تعلیمی اداروں کے خلاف  کریک ڈاؤن جاری

اب تک غیر قانونی قرار دے کر 84 مدارس کو سیل کر دیا گیا،مدارس کے ذمہ داروں نے کارروائی کے پیچھے مسلم تعلیمی اداروں کو کمزور کرنا اور ان کی مذہبی شناخت کو ختم کرنا قرار دیا

نئی دہلی ،20 مارچ :

اترا کھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی قیادت والی ریاستی حکومت مسلسل مسلمانوں کے خلاف سر گرم ہے۔خاص طور پر مدارس اور مساجد نشانے پر ہیں ۔ اب تک حکومت نے غیر قانونی قرار دے کر ریاست  کے84 مدارس کو سیل کر دیا ہے۔حکومت ان مدارس کو غیر قانونی قرار دے رہی ہیں وہیں اس کارروائی سے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ ہے۔ مدارس کے ذمہ داران نے اس کارروائی کو مسلم تعلیمی اداروں کو کمزور کرنے اور ان کی شناخت کو ختم کرنے کی کارروائی قرار دیا ہے۔

حکومت کے ذریعہ سیل کئے گئے مدارس بنیادی طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں موجود ہیں جن میں دہرہ دون میں 43،ہریدوار اور نینی تال میں 31 اور ادھم سنگھ نگر میں 9 مدارس شامل ہیں ۔اگر چہ حکومت مسلسل دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ ادارے غیر قانونی طور پر چلائے جا رہے تھے مگر مدارس کے ذمہ داران  کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد مسلم تعلیمی اداروں کو کمزور کرنا اور ان کی مذہبی شناخت کو ختم کرنا ہے۔ حکومت کے افسران نے اس کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی کسی مخصوص فرقہ کو نشانہ بناتے ہوئے نہیں کی جا رہی ہے مگر حکومت کے ذریعہ دوسرے غیر رجسٹرڈ اسکولوں کے خلاف اسی طرح کی کارروائی کی کمی کی طرف اشارہ کیا۔ان کا سوال ہے کہ غیر رجسٹرڈ اسکولوں کے خلاف یہی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ۔

دریں اثنا اترا کھنڈ مدرسہ بورڈ کے سر براہ شمعون نے مدرسہ آپریٹر پر زور دیا ہے کہ وہ سرکاری شناخت کے لئے درخواست دیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ درست دستاویزات والے مدارس کو ہراساں نہیں کیا جائے گااور قانونی تقاضے مکمل کرنے والے سیل مدارس کو دوبارہ کھولا جاسکتا ہے۔

حکومت کی جانب سے اچانک اس سیل کی کارروائی سے مدارس کے ذمہ داران میں تشویش کی لہر ہے۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کارروائی قانونی حیثیت سے متعلق نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔دریں اثنا مدارس کے ذمہ داران نے اشارہ کیا ہے کہ وہ حکومت کے اس اقدام کے  خلاف عدالت کا بھی رخ کر سکتے ہیں  بلکہ وہ اس کی تیاری کر رہے ہیں ۔ذمہ داران اور علمائے کرام نے اس اقدام کو آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور حکومت پر مسلمانوں کے ساتھ جان بوجھ کر امتیازی سلوک کرنے کا الزام لگایا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ بڑے عدالتی تصادم میں تبدیل ہو سکتا ہے۔