اتراکھنڈ میں مسلمانوں کیخلاف ‘نام بدلو دھرم  بتاو مہم’ سےمقامی  تاجروں میں خوف

پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد نفرت میں مزید اضافہ،ہندوتو تنظیمیں مسلم دکانداروں کے خلاف سر گرم

نئی دہلی ،16 مئی :۔

بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں  اترا کھنڈ ایک ایسی ریاست کے طور پر ابھری ہے جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے ۔مسلم شناخت عمارتوں ،عبادت گاہوں ،مزارات اور مدارس کے خلاف حکومت کی سر پرستی میں ایک مہم چل رہی ہے وہیں ان دنوں    شہر کے بازاروں میں نفرت کی ایک الگ ہی ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دکانوں کے باہر لگے بورڈ اب شناخت کا مرکز بن چکے ہیں۔خاص طور پر مسلم دکانداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ کچھ دکاندار خوف کے مارے اپنے بورڈ تبدیل کر رہے ہیں جبکہ کچھ اپنی دکانیں  ہی بند کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ کچھ ہندو تنظیموں کی طرف سے دکانداروں کی مذہبی شناخت پوچھنے، کی مہم ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق بی جے پی یووا مورچہ کے وزیر وپن پانڈے خود دکانوں کا دورہ کر رہے ہیں اور لوگوں سے کہہ رہے ہیں، ’’یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دکاندار کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔  ان کے مطابق، یہ مہم اس لیے اہم ہے کیونکہ "ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جو چیزیں ہم بھگوان  کو پیش کر رہے ہیں وہ مکمل طور پر خالص ہیں یا نہیں۔”تاہم انتظامیہ کی جانب سے اس پوری مہم کے حوالے سے کوئی باضابطہ حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم زمینی صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماحول کشیدہ ہوتا جا رہا ہے۔

مقامی مسلم تاجروں کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے کے بعد اس  نفرتی رجحان میں تیزی آئی ہے۔ اب کئی ہندو تنظیمیں دکانوں کے کیو آر کوڈز کو اسکین کرکے مالکان کی شناخت معلوم کر رہی ہیں۔ اس کے بعد دکان کا نام تبدیل کرنے اور بورڈ پر مذہبی شناخت لکھنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کچھ دکانداروں نے اپنے نام کے بورڈ ہٹا دیے ہیں اور کچھ نے اپنی دکانیں بند کر دی ہیں۔

نبی احمد نامی ایک مسلم  تاجر کے   ایک دوست نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں لکھا تھا، "آج شام 4 بجے سائی سویٹس کی دکان کے باہر میٹنگ ہے، دکان کا نام بدل کر مسلم شناخت کے ساتھ نام رکھ دیں، تاکہ شناخت واضح ہو۔ نبی صاحب تھانے میں شکایت درج کرانے کا سوچ رہے تھے کہ ایس ایچ او خود دکان پر پہنچے۔ انہوں نے لائسنس مانگا۔ دکان کے دونوں لائسنسوں پر ’سائی مٹھائی‘ لکھا ہوا تھا۔ میونسپل کارپوریشن کی پرچیاں بھی دکان کے نام پر تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک اس پورے معاملے میں کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی انتظامیہ کی طرف سے کوئی واضح ہدایات آئی ہیں۔ لیکن شناخت کی سیاست جس طرح دکانوں تک پہنچی ہے اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ بازار اب صرف کاروبار کا مرکز نہیں رہا بلکہ یہ اب سماجی شناخت کی جنگ میں ایک نیا محاذ بنتا جا رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اس نفرتی مہم میں گرچہ حکومت آفیشیل طور پر شامل نہیں ہے لیکن حکومت کی شہہ پر ہی ہندوتو تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔