اتراکھنڈ: مسلمانوں کو ہندو کاروباری تنظیم کا انتباہ ،سال کےآخر تک  چمولی چھوڑ دیں

چمولی ضلع کے کھنسر قصبے میں ہندو تاجروں کے ایک گروپ نے 15 مسلم خاندانوں کو 31 دسمبر تک چمولی چھوڑنے کا انتباہ دیا ،پولیس معاملے سے بے خبر

نئی دہلی ،19 اکتوبر :۔

اتراکھنڈ میں ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف مہم شروع کی گئی ہے ۔اس بار ہندووں کی کاروباری تنظیم نے مسلم کاروباریوں اور تاجروں کو چمولی چھوڑنے کا انتباہ دیا ہے۔  چمولی ضلع میں واقع کھنسر قصبے میں ہندو تاجروں کے ایک گروپ نے تقریباً 15 مسلم خاندانوں کو 31 دسمبر تک وہاں سے نکل جانے کو کہا ہے۔ ان میں سے کچھ خاندان کئی سالوں سے وہاں مقیم ہیں۔ یہ فیصلہ ایک ریلی کے بعد ایک میٹنگ کے دوران کیا گیا جہاں مقامی ہندو تاجروں نے اشتعال انگیز نعرے لگائے۔پہلی نظر میں یہ پورا معاملہ کاروباری ہے جہاں ہندو تاجروں کو اپنے کاروبار میں مسلم تاجروں سے مقابلے کا خدشہ ہے اور خالص کاروباری معاملے کو لے کر مسلمانوں کے خلاف یہ اعلان کیا گیا ہے۔

تنظیم کے موجودہ صدر وریندر سنگھ نے کہا، "ہم نے یہ قرارداد اتفاق رائے سے ایک احتیاطی کارروائی کے طور پر منظور کی ہے۔ اگر یہ خاندان ڈیڈ لائن تک نہیں جاتے ہیں تو ان کے خلاف اور جو بھی انہیں کرایہ پر دیتا ہے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ مالک مکان کو 10,000 روپے جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

رویندرسنگھ نے یہ بھی بتایا کہ کھانیسر وادی کے گاؤں میں ہاکروںاور پھیری کرنے والوں  کے داخلے پربھی پابندی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ "کوئی بھی ہاکر کاروبار کرتے ہوئے پکڑا جائے گا، اسے بھی 10,000 روپے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔” انہوں نے وضاحت کی کہ ان اقدامات کا مقصد ہندو خواتین کے خلاف کسی بھی قسم کے واقعات کو روکنا ہے، دوسرے قصبوں میں اسی طرح کے خدشات کے بعدیہ قدم اٹھایا گیا ہے ۔

ہندوتو تنظیموں کے اس فیصلے اور اعلان کے بعد مقامی مسلمانوں میں خوف اور تشویش کا ماحول ہے۔حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی  اور یقین دہانی نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں خوف مزید بڑھ رہا ہے۔مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ  ہم میں سے کوئی بھی مجرمانہ واقعات میں ملوث نہیں ہے۔ یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے اور کاروباری وجوہات کی بناء پر ہمیں باہر نکالنےکی کوشش ہے۔

چمولی کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سرویش پنوار نے کہا کہ وہ اس قرارداد سے واقف نہیں  ہیں لیکن انہوں نے تحقیقات کا وعدہ کیا۔ "اگر ضرورت پڑی تو ہم مناسب قانونی کارروائی کریں گے۔ کسی کو بھی ضلع میں امن اور ہم آہنگی کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں، دھمکیوں اور دباؤ  کی وجہ سے اقلیتی برادری کے کئی خاندانوں کو اتراکھنڈ کے مختلف حصوں میں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور  ہونا پڑا ہے۔ متعدد مقامات پر پھیری کرنے والے مسلمانوں کی شناخت کر کے ان پر زیادتی کی گئی ہے اور حملے تک کئے گئے ہیں ۔