اتراکھنڈ: غیر ہندوؤں  کی انٹری  پر پابندی  کا بورڈ آویزاں ، مقامی مسلمانوں میں تشویش

 مقامی مسلمانوں کے وفد نے  ڈی جی پی سے ملاقات کر کے تحفظ کا مطالبہ کیا،

نئی دہلی ،05 ستمبر :۔

اتراکھنڈ  کی سر زمین پرایک بار پھر فرقہ وارانہ کشیدگی  بڑھ رہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی  نفرت اب ایک سماجی بیماری کا شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ہندو شدت پسندوں نے بعض علاقوں  میں باقاعدہ بورڈ لگاکر مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ غیر ہندو اور روہنگیا مسلمانوں کی آمد پر پابندی کا بورڈ آویزا ں کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے مقامی مسلمانوں میں تشویش کی لہر پائی جا رہی ہے۔ اس سے قبل اترا کھنڈ میں متعدد مندروں کے باہر غیر ہندوؤں کے داخلہ پر پابندی کے بورڈ لگائے جاتے رہے ہیں لیکن کسی مکمل علاقے میں مسلمان پھیری والوں  کے داخلہ پر پابندی نے خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے

اس سلسلے میں   مسلم وفود نے آج اتراکھنڈ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) ابھینو کمار سے ملاقات کی۔ وفود نے گڑھوال کی پہاڑیوں بالخصوص چمولی ضلع کے نند گھاٹ اور گوپیشور علاقوں میں بگڑتی ہوئی فرقہ وارانہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور وہاں رہنے والی اقلیتی مسلم آبادی کے لیے پولیس تحفظ کا مطالبہ کیا۔

ال انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے ایک وفد کی قیادت اتراکھنڈ ریاستی یونٹ کے صدر ڈاکٹر نیئر کاظمی نے نند گھاٹ میں حالیہ تشدد کے متاثرین کے ساتھ ڈی جی پی کو دائیں بازو کے ہندوتوا گروپوں کے حملوں کے بارے میں مطلع کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کی ملکیتی دکانوں اور کاروباری اداروں کو توڑ پھوڑ، لوٹ مار اور نند گھاٹ میں ان کی مسجد کو نقصان پہنچایا گیا۔ کئی مسلمانوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

وہیں دہرادون شہر قاضی مولانا محمد احمد قاسمی کی قیادت میں مسلم سیوا سنگٹھن کی نمائندگی کرنے والے ایک اور وفد نے گڑھوال اور کماون علاقوں میں مسلم اقلیتی آبادی کو نشانہ بنانے کے بڑھتے ہوئے واقعات کی تفصیل کے ساتھ ایک میمورنڈم پیش کیا۔

مبینہ طور پر یہ تشدد چمولی ضلع کے نند گھاٹ بازار میں ایک مسلم نوجوان کی طرف سے چھیڑ چھاڑ کے الزامات کے بعد شروع ہوا، جو حجام کی دکان چلا رہا تھا۔ متاثرہ بچی کے والد کی جانب سے شکایت درج کرانے کے بعد ملزم فرار ہو گیا۔ اس کے بعد، ہندوتوا کارکنوں کے مشتعل ہجوم نے مسلمانوں کی سات دکانوں پر حملہ کیا اور لوٹ مار کی، ایک عارضی مسجد کو نقصان پہنچایا، اور مسلمانوں کی ملکیت والی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی۔ اگرچہ ملزم عارف خان کو بعد میں بجنور میں گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن تشدد پہلے ہی پھیل چکا تھا۔

وفود نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ گوپیشور قصبے میں اشتعال انگیز جلوس نکالے گئے، جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔ پولیس نے اس کے بعد سے نند گھاٹ میں امتناعی احکامات نافذ کیے ہیں اور تشدد میں ملوث 500 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں۔مسلم وفود نے رودرپریاگ ضلع میں ہندوتوا گروپوں کی طرف سے لگائے گئے عوامی بورڈز کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا، جس میں کاروباری سرگرمیوں کے لیے غیر ہندوؤں اور روہنگیا مسلمانوں کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ان کا موقف تھا کہ یہ اقدامات غیر قانونی ہیں اور ہندوستانی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

وفود نے  پولیس پر زور دیا کہ وہ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھے اور پسماندہ طبقات کے حقوق کا تحفظ کرے۔جواب میں ڈی جی پی ابھینو کمار نے وفود کو مناسب کارروائی کا یقین دلایا۔