اتراکھنڈ حکومت نے 200 مدارس کو ‘فرضی’ قرار دیا، مسلم رہنماؤں کی تنقید

ریاستی ترجمان نے کہا، ’’ہمارا مقصد شفافیت کو یقینی بنانا اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کو روکنا ہے۔ اس میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہے

نئی دہلی ۔09 جنوری :۔

اتراکھنڈ حکومت  مسلسل مسلم اداروں اور شناخت کے خلاف سر گرم ہے۔ آئے دن انتہا پسندہندو تنظیموں کی جانب سے اترا کھنڈ کو دیو بھومی قرار دے کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور متعدد مقامات پر درگاہوں اور مزاروں کو کھلے عام توڑ کر اس کی ویڈیو بھی بنائی جاتی ہے۔مگر حکومت کسی بھی طرح کی کارروائی نہیں کرتی نظر آتی ہے۔ بلکہ ان انتہا پسندوں کو کو حکومت کی سر پرستی حاصل ہے۔ اب اترا کھنڈ حکومت  نے ریاست میں چلنے والے مدارس کے خلاف مہم شروع کی ہے۔رپورٹ کے مطابق اترا کھنڈ میں حکومت نے  تقریباً 200  مدارس کو’فرضی’ ہونے کا دعوی کرتے ہوئے ریاست بھر میں مدارس کے آپریشنز کی تحقیقات شروع کی ہے۔ وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے کہا کہ کریک ڈاؤن کا مقصد "غیر قانونی سرگرمیوں یا مشکوک فنڈنگ ​​حاصل کرنے” میں ملوث مدارس کو ختم کرنا ہے۔

سرکاری اطلاعات کے مطابق ادھم سنگھ نگر میں 129، دہرادون میں 60 اور ہریدوار میں 21 مدارس کو ممکنہ طور پر  فرضی  قرار دیا گیا ۔ دھامی نے ضلعی پولیس سربراہوں کو ہدایت دی کہ وہ مدرسہ کی کارروائیوں کا مکمل معائنہ کریں۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی غیر قانونی فنڈنگ ​​یا قواعد کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے گی۔

تحقیقات نے تنازعہ کو جنم دیا ہے، خاص طور پر اپوزیشن کانگریس پارٹی کی طرف سے، جس نے حکومت پر مسلم کمیونٹی کو چن چن کر نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ کانگریس کے ریاستی صدر نے کریک ڈاؤن کے وقت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آئندہ انتخابات کے قریب ہونے کے پیش نظر یہ سیاسی طور پر محرک ہے۔ "اس طرح کے اقدامات ہمیشہ انتخابات کے ارد گرد کیوں ہوتے ہیں؟ اگر انکوائری ضروری ہے تو اس میں نجی اسکولوں کا بھی احاطہ کیا جانا چاہیے جہاں قوانین کی خلاف ورزیاں عام ہیں۔

مقامی مسلم رہنماؤں اور مدرسوں کے منتظمین نے مدارس کو ‘فرضی’ اداروں کے طور پر وسیع پیمانے  تشہیر پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔  مدارس کے منتظمین نے کہا کہ یہ مہم کمیونٹی میں خوف کا ماحول پیدا کر رہی ہے۔ حقیقی اداروں کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

مسلم تنظیموں نے کہا کہ مدارس کئی دہائیوں سے تعلیمی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ انہیں ریگولیٹ کیا جانا چاہئے، لیکن انہیں نشانہ بنانا خصوصی طور پر تعصب کے خدشات کو جنم دیتا ہے۔

شہری حقوق کی تنظیموں نے جاری تحقیقات میں زیادہ شفافیت کا مطالبہ کیا ہے، حکام پر زور دیا ہے کہ وہ مدارس کو ‘ فرضی’ قرار دینے کے لیے استعمال ہونے والے معیار کو ظاہر کریں۔

تاہم، اتراکھنڈ حکومت کا دعویٰ ہے کہ تحقیقات مکمل طور پر انتظامی ہیں۔ ریاستی ترجمان نے کہا، ’’ہمارا مقصد شفافیت کو یقینی بنانا اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کو روکنا ہے۔ اس میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہے۔‘‘