اتراکھنڈ:پرولا میں حالات معمول پر،پولیس کے پہرے میں مسلمانوں نے کھولی دکانیں
ہندوتو تنظیموں کے ذریعہ لو جہاد کا جھوٹا پروپیگنڈہ بھی بے نقاب،متاثرہ لڑکی کے خاندان نے ہندوتو تنظیموں پر فرقہ وارانہ رنگ دینے کا لگایا الزام
نئی دہلی،19 جون :۔
اترکاشی کا پرولا قصبہ گزشتہ 20 دنوں سےہندوتو تنظیموں کے لئے ہنگامہ آرائی اور مسلم دشمنی کا آماجگاہ بنا ہوا تھا،15 جون کی مہا پنچایت کے خلاف انتظامیہ کی سختی نے شر پسندوں کی لگائی آگ کو ٹھنڈا کیا اور اب فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ ہندوتوا گروپوں کی دھمکیوں کے بعد وہاں رہنے والے مسلم خاندان اپنا دکان اور مکان چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔ہفتہ کے روز سے مسلم تاجروں نے پولیس کی حفاظت کے درمیان مرکزی بازار میں اپنی دکانیں دوبارہ کھول دیں ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 26 مئی کو مسلمانوں کے خلاف ہندوتو تنظیموں کا ہنگامہ اس وقت شروع ہوا جب دو افراد ایک نابالغ لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ اس کیس کے دو ملزمان میں سے ایک 24 سالہ مسلم نوجوان عبید خان جبکہ دوسرا ہندو نوجوان 23 سالہ جتیندر سینی تھا۔ لڑکی کو گھر واپس بھیج دیا گیاتھا اور انتظامیہ نے ان دونوں ملزمین کو گرفتار کر لیا تھا ،لیکن بعد میں ہندوتو تنظیموں نے اس پورے معاملے میں لو جہاد کے مفرضے کے تحت اتر کاشی میں مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کر دی اور انہیں گھر مکان چھوڑ کر شہر خالی کرنے کی دھمکی دی گئی ۔شدت پسند تنظیموں نے اس دوران مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کی۔خوفزدہ مسلمان اپنا گھر اور دکان چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔خود بی جے پی سے وابستہ اقلیتی سیل کے عہدیداران کو بھی اپنا مکان اور دکان خالی کرنا پڑا۔
شدت پسند ہندوتو تنظیموں بشمول وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل نے اس واقعہ کے بعد اپنی نفرت انگیز مہم تیز کردی۔ اس معاملے میں دونوں ملزم نوجوانوں کو گرفتار کر کے عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا۔ ان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 363 (اغوا) اور 366A اور جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ(پوکسو) ایکٹ کے سیکشن کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
لیکن اب جب حالات معمول پر آ رہے ہیں تو اس پورے معاملے کا انکشاف بھی ہو رہا ہے ۔ہندو تنظیموں کے خوف سے جو خاموش بیٹھے تھے وہ بھی کھل کر سامنے آ رہے ہیں اورمسلمانوں کے خلاف ایک گہری سازش کا انکشاف کر رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ایک 40 سالہ سرکاری اسکول ٹیچر، جو دونوں نوجوانوں کے خلاف پولیس کیس میں مرکزی شکایت کنندہ تھا، نے کہا ہے کہ اس معاملے میں کوئی مذہبی زاویہ نہ ہونے کے باوجود اس پورے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا۔ اس کیس میں مرکزی شکایت کنندہ نے دائیں بازو کی تنظیموں کے جھوٹ کو بے نقاب کیا ہے اور تصدیق کی ہے کہ وہ پورا معاملہ ایک معمول کے جرم کی طرح ہے۔
بی بی سی ہندی کی رپورٹ کے مطابق ’’شروع سے ہی اس معاملے کو فرقہ وارانہ مسئلہ بنانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ دائیں بازو کے کارکنوں نے اپنی سطح پر ہمارے لیے پولیس شکایت بھی تیار کی، لیکن پولیس نے اسے قبول نہیں کیا۔ یہ کبھی بھی ‘لو جہاد’ کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ ایک جرم تھا۔ جنہوں نے ایسا کیا وہ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اب اس معاملے کا فیصلہ عدلیہ کرے گی۔
اس معاملے میں شکایت کنندہ اور متاثرہ لڑکی کے چچا نے کہا کہ دائیں بازو کے کئی گروپوں نے ان سے رابطہ کیا، لیکن اس نے انہیں صاف طور پر بتایا کہ وہ ان کی تحریک میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں، جس کی قیادت دیو بھومی رکھشا ابھیان اور وی ایچ پی کر رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہندو گروہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ان کا واحد مقصد مسلمانوں کے خلاف نعرے لگانا ہے۔
شکایت کنندہ نے کہا، "مجھ تک پہنچنے کی ان کی کوششوں نے میری زندگی کو جہنم بنا دیا ہے، لیکن میں نے ہر بار انہیں ٹھکرا دیا ہے۔ میں نے اپنے موبائل فون پر نامعلوم نمبروں سے آنے والی کالوں کا جواب دینا بھی بند کر دیا ہے، میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتا۔‘‘ ان کے یہ ریمارکس اس بات کا واضح ثبوت تھے کہ پرولا میں جان بوجھ کر مذہبی منافرت پیدا کی گئی اور اس کے بعد سے اس معاملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
مہاپنچایت کو بعد میں ضلع انتظامیہ نے منسوخ کر دیا اور علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ 5 جون کو آئی پی سی کی دفعہ 153-A (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور 506 (مجرمانہ دھمکی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، لیکن ابھی تک کسی شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی طرف سے ریاستی حکومت کو علاقے میں امن و امان اور امن کو یقینی بنانے کی ہدایت کے بعد انتظامیہ کو سخت کارروائی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ عدالت کی یہ ہدایت ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی طرف سے دائر درخواست پر آئی ہے، جس میں 15 جون کی مہاپنچایت کو روکنے کا مطالبہ کیا گیاتھا۔
متاثرہ لڑکی کے چچا نے کہا کہ اگرچہ وہ دونوں ملزمان کی جلد گرفتاری پر پولیس کے شکر گزار ہیں، لیکن وہ اس بات سے ناخوش ہیں کہ اس کیس کا استعمال مسلمانوں کو دھمکیاں دینے اور انہیں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسلمانوں کی حمایت کرنا چاہتے ہیں لیکن ڈر رہے ہیں کہ موجودہ ماحول میں اسے مثبت انداز میں نہیں لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں جب بھی سوشل میڈیا چیک کرتا ہوں تو مجھے کیس کی خبروں سے متعلق ویڈیوز نظر آتی ہیں جس میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ‘لو جہاد’ کا معاملہ ہے۔ جبکہ مجھ سے کسی نے نہیں پوچھا کہ اصل کہانی کیا ہے؟ 26 مئی کے واقعے کے بعد متاثرہ لڑکی اپنے گھر میں قید ہے۔ اس واقعے نے اس پر نفسیاتی اثر چھوڑا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے لیے پریشان ہے۔پرولا کے سرکل آفیسر سریندر سنگھ بھنڈاری نے بتایا کہ اب حالات معمول پر آ رہے ہیں ۔