اتراکھنڈ:اقلیتی تعلیمی ادارہ بل2025مسلمانوں کے تعلیمی حقوق چھیننے کی کوشش
یہ بل بی جے پی کے مسلم مکت اتراکھنڈ کے ایجنڈے کا حصہ ،ریاستی جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری نے کہا کہ بل پاس ہونے کے بعد کورٹ میں چیلنج کرنے کی ضرورت پر غور کیا جائے گا

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی،19 اگست :۔
اتراکھنڈ کی دھامی حکومت ریاست میں مسلمانوں کے خلاف مسلسل سر گرم ہے ۔خاص طور پرمسلم شناخت سے اسے حد درجہ بیر ہے ۔گزشتہ برسوں میں اتراکھنڈ میں واقع متعدد مزارات اور درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں سرکار کی سر پرستی میں منہدم کرنے کی ایک مہم شروع کی گئی تھی ،پھر مدارس کے خلاف ایک مہم شروع کی گئی اور سیکڑوں مدارس کو غیر قانونی اور رجسٹرڈ نہ ہونے کا بہانہ بنا کر بند کر دیا گیا ۔اب مزید مسلمانوں کی تعلیمی اداروں کی روح سلب کرنے کیلئے ایک نیا متنازعہ قانون کو منظوری دی گئی ہے ۔اترا کھنڈ اقلیتی تعلیمی ادارہ بل 2025 کو متعارف کرانے کی تیاری ہے جس کو مسلمانوں کی تعلیمی شناخت کو ختم کرنے کی سازش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ یہ بل دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ، مدرسہ بورڈ اور اقلیتی ریاست میں چلنے والے ادارے کے قوانین کو منسوخ کر دے گا۔
رپورٹ کے مطابق یہ بل سکھ، جین، بدھ، عیسائی اور پارسی کمیونٹیز کے ذریعہ چلائے جانے والے اداروں کو اقلیتی درجہ کے فوائد میں توسیع دے گا۔ اس اقدام کو مدارس کو ختم کرنے کی کوشش کے طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ مجوزہ قانون کے نتیجے میں آئین کے آرٹیکل 26 اور 30 کے تحت ان کے حقوق سلب ہوں گے، جو اقلیتوں کو تعلیمی ادارے چلانے اور ان کے مذہبی امور کو سنبھالنے کے حقوق فراہم کرتے ہیں۔یہ بل ممکنہ طور پر اپنی نوعیت کا پہلا مسودہ قانون ہے، جو مسلمانوں کے علاوہ اقلیتی برادریوں کو اقلیتی تعلیمی اداروں کی حیثیت کے فوائد فراہم کرتا ہے۔
انڈیا ٹو مارو کی رپورٹ کے مطابق اس قانون پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے، جمعیۃ علماء ہند کے ریاستی سکریٹری خورشید احمد نے کہا، "ابتدائی طور پر، یکساں سول کوڈ نے مذہب پر عمل کرنے کے حق کو چھینا ، تبدیلی مذہب مخالف ایکٹ صورتحال کو مزید گہرا کیا، مدرسہ بورڈ کے منسوخ ہونے سے مذہبی تعلیم متاثر ہوگی۔انہو ں نے کہا کہ بل پیش ہونے کے بعد اس کا تجزیہ کریں گے اور اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کیا اسے قانونی طور پر چیلنج کرنے کی ضرورت ہے،‘‘
دوسری طرف، ریاستی بی جے پی کے سربراہ مہندر بھٹ نے کہا کہ یہ قانون سازی پارٹی کے "سب کا ساتھ، سب کا وکاس” کے نعرے کی آئینہ دار ہے اور اقلیتوں کے آئینی حقوق کا تحفظ کرے گی۔ "اب تک، اقلیتی تعلیمی اداروں کا فائدہ صرف مسلمان ہی حاصل کرتے تھے۔ مجوزہ بل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ دیگر اقلیتی برادریوں کو بھی فائدہ ملے۔
اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ اور سینئر کانگریس لیڈر ہریش راوت نے اس اقدام کی مذمت کی ہے ،انہوں نے مدرسہ بورڈ کو جدید بنانے پر زور دیا۔ انہوں ںے کہا کہ اگر بورڈ میں کوتاہیاں ہیں تو اسے دور کریں۔ اس بل کو پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ بی جے پی حالیہ پنچایتی انتخابات میں اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے اور لوگ ناراض ہیں۔
راوت نے بی جے پی کو تنگ نظر بھی کہا اور کہا کہ وہ ‘مدرسہ’ جیسے اردو الفاظ سے کیوں نفرت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو ہندوستان کی جامع ثقافت کی پیداوار ہے اور مدارس کی اپنی تاریخ ملک کی جدوجہد آزادی سے وابستہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مذہبی تعلیم مسلمانوں سمیت اقلیتوں کا حق ہے اور اسے آئین کے تحت چلنے والے سیکولر ملک میں منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ بی جے پی کا ’’مسلم مکت اتراکھنڈ‘‘ بنانے کا نعرہ تمام آئینی اقدار کے بالکل برعکس ہے اور پارٹی کے اکثریتی ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے۔