اب دارالعلوم دیوبند اور مسجد رشیدکا بھی سروے کرانےکامطالبہ
شدت پسند ہندوتو لیڈر سادھوی پراچی کا دارالعلوم دیوبند کے سلسلے میں متنازعہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل
نئی دہلی ،09 دسمبر :۔
ہندو انتہا پسند جماعتوں اور رہنماؤں کی جانب سے مساجد ،درگاہوں اور مقابر پر مندر ہونے کے بے تکے اور بے بنیاد دعوؤں کا سلسلہ گزرتے وقت کے ساتھ مزید دراز ہوتا جا رہا ہے۔ سنبھل کی جامع مسجد کے مندر ہونے کے دعوے اور فوری عدالت کے حکم کے بعد سروے سے ان کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سنبھل کے بعد دہلی کی جامع مسجد اور اجمیر درگاہ کا بھی سروے کا مطالبہ کر دیا اور اب تو مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ہندوستان کی عظیم اسلامی درسگاہ دارالعلوم دیوبند اور مسجد رشید کے بھی سروے کے سوشے چھوڑے جا رہے رہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ہندوتووادی انتہاء پسند خاتون رہنما سادھوی پراچی نے دارالعلوم دیوبند کولےکر اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے دارالعلوم دیوبند اور یہاں کی مسجد رشید (بڑی مسجد) کی کھدائی اور سروے کرنے کامطالبہ کیاہے۔
سادھوی پراچی کا یہ اشتعال انگیز بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ جس میں وہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اگر دارالعلوم دیوبند اور مسجد رشید کی کھدائی کی جائے تو یہاں بھی مندر نکلے گا۔سادھوی نے یہ بیان دیوبند پہنچ کر دیا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت میں مندروں کو گرا کر بنائی گئی مساجد کو واپس لیا جائے۔ اس نے’ ایودھیا اب ہماری ہے، کاشی اور متھرا کی باری ہے‘ کا نعرہ بھی لگایا۔سادھوی نے کہا کہ سروے ہو رہا ہے، تما م جگہوں پر سروے ایک ساتھ ہونا چاہیے۔ سادھوی پراچی کا یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔ دریں اثنا سادھوی پراچی کے اس بیان کا جواب دیتے ہوئے اتر پردیش کے پسماندہ طبقے کے بہبود کے وزیر نریندر کشیپ نے اسے ذاتی رائے قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کاشی اور متھرا جیسے معاملات میں ثبوت ملے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر مسجد پر شک کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ "یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ ہمیں برسوں کے انتظار کے بعد رام مندر ملا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام مساجد کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے۔
سادھوی پراچی کے وائرل بیان پر مسلمانوں میں ں غصہ ہے۔ دیوبند کے مقامی لوگوں نے اسے مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بغیر کسی تاریخی بنیاد کے اس طرح کے دعوے کرنے سے کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور ملک کے امن و امان کو نقصان پہنچے گا۔اطلاع کے مطابق دارالعلوم انتظامیہ کا اس سلسلے میں ابھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔