ابتدائی تحقیقات میں بہرائچ تشدد کے پس پردہ منصوبہ بند سازش اور انٹیلی جنس کی ناکامی
نئی دہلی ،17 اکتوبر :۔
بہرائچ میں گزشتہ دنوں درگا مورتی وسرجن کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کی آگ بھلے بجھ گئی ہو ،حالات معمول پر لوٹ رہے ہوں مگر ماحول اب بھی کشیدہ ہے۔خاص طور پر مسلمانوں میں خوف و ہراس کا عالم ہے۔ دکانیں کھلی ہیں مگر پولیس اور فورس کی تعیناتی بر قرار ہے۔دریں اثنا ابتدائی تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہ پورا فرقہ وارانہ تشدد منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھا اور انٹیلی جنس کی ناکامی تھی ۔
واضح رہے کہ بہرائچ میں 13 اکتوبر کو درگا مورتی وسرجن کے جلوس کے دوران فرقہ ورانہ تشدد میں ایک 22 سالہ نوجوان رام گوپال مشرا کی موت ہو گئی ۔اس دوران پتھراؤ اور آگزنی میں شر پسندوں نے مسلمانوں کی متعدد دکانوں ،مکانوں اور اسپتالوں کو نذر آتش کر دیا جس میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو اقتصادی طور پر خسارے کا سامنا ہے۔
ڈی جی پی ہیڈکوارٹر کو پیش کی گئی رپورٹ میں مقامی انٹیلی جنس یونٹ اور مہسی سرکل آفیسر روپیندر کمار گوڑ کی سر گرمی کا نوٹس لیا گیا ہے۔ ڈی جی پی ہیڈکوارٹر نے اب گور کو ان کے عہدے سے معطل کر دیا ہے۔ سینئر حکام کے مطابق معطلی عارضی ہے کیونکہ تحقیقات جاری ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی انٹیلی جنس یونٹ اتوار اور پیر دونوں دن اس صورتحال کا جائزہ لینے میں ناکام رہا۔ پولس سرکل آفیسر کو شروع سے ہی اس واقعہ کا علم نہیں تھا جب جلوس نکالا گیا تھا اور روپیندر کے پہنچنے تک جوتشدد شروع ہوا وہ انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر تھا۔
دی آبزرور پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ موقع پر لاٹھی، اینٹیں اور پتھر جمع کیے گئے اور چند منٹوں میں بھیڑ جمع ہونا شروع ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ضلع میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی تیاری کی سازش لگتا ہے۔انہوں نے کہا، "سی سی ٹی وی فوٹیج میں وسرجن کی جگہ کے قریب لوگوں کا وہی گروپ نظر آیا جو اگلے ہی دن تشدد اور توڑ پھوڑ میں ملوث تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "بہت سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس گمراہ کن افواہیں پھیلانے میں ملوث ہیں جس سے حالات بے قابو ہوئے ، ان کی جانچ جاری ہے ۔ اس سلسلے میں یوپی پولیس نے 60 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔