
آپریشن رائزنگ لائن: حقیقت یا ایک نیا مغربی فریب؟
کیا اسرائیل کا تازہ ترین فوجی حملہ ایران کے جوہری خطرے کے خلاف ایک حفاظتی اقدام ہے، یا یہ ایک سوچی سمجھی چال ہے جس کا مقصد خطے کو عدم استحکام کی نئی دلدل میں جھونکنا اور ایران میں بیرونی مداخلت کی راہ ہموار کرنا ہے؟
محمد طلحہ سیدی باپا
بھٹکل، کرناٹکا
ابتدائیہ
جون 2025 میں اسرائیل نے ایران پر جو فضائی حملہ کیا اُسے "آپریشن رائزنگ لائن” کا نام دیا گیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے اسے ایران کے جوہری خطرے کے خلاف ایک “احتیاطی اقدام” کے طور پر پیش کیا، لیکن جب اس آپریشن کے نام، وقت، اور بیانیے پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک گہرے نظریاتی اور سیاسی منصوبے کا حصہ ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے حالیہ بیانات میں صرف جوہری ہتھیاروں پر تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا، بلکہ انہوں نے ایرانی عوام کو اپنی حکومت کے خلاف بغاوت پر اُکسایا ہے۔ ان کا لب و لہجہ ایک ایسے لیڈر کا تھا جو اب دفاع نہیں، بلکہ تبدیلی حکومت کی کھلی مہم چلا رہا ہے۔ یہی بیانیہ اس "آپریشن” کے نام سے بھی جھلکتا ہے۔
’رائزنگ لائن‘: ایک منصوبہ بند علامتی حملہ
ظاہری طور پر یہ حملہ ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا، لیکن "رائزنگ لائن” جیسا نام درحقیقت ایک سیاسی علامت ہے۔ یہ نام ایران کے بادشاہی دور، خاص طور پر پہلوی خاندان کی یاد دلاتا ہے۔ اُس وقت ایران کے قومی پرچم پر ایک شیر تلوار تھامے سورج کے سامنے کھڑا ہوتا تھا، اور اُس کے سر پر تاج ہوتا تھا—یہ سب کچھ مغربی حمایت یافتہ بادشاہت کی نمائندگی کرتا تھا، نہ کہ ایرانی عوام کی۔
یہ محض ایک تاریخی حوالہ نہیں، بلکہ موجودہ اسلامی جمہوری نظام کے خلاف شعوری نفسیاتی حملہ ہے۔ اسرائیل دراصل یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ایران کو ایک بار پھر اُس پرانے مغربی تابع دور میں لوٹایا جائے جہاں اُس کی خارجہ پالیسی امریکی مفادات کے گرد گھومتی تھی۔
نیتن یاہو کا بدلتا ہوا بیانیہ
نیتن یاہو کی تقریریں اب روایتی دفاعی انداز سے ہٹ چکی ہیں۔ وہ ایرانی عوام سے کھل کر مخاطب ہو رہے ہیں اور اُنہیں "ملک واپس لینے” کی ترغیب دے رہے ہیں۔ یہ وہی زبان ہے جو امریکہ نے عراق اور لیبیا میں مداخلت سے قبل استعمال کی تھی، اور ان ممالک کا انجام آج پوری دنیا کے سامنے ہے۔
ایران کے اندرونی چیلنجز ضرور ہیں، لیکن یہ ایک خود مختار ریاست ہے۔ ایسی کسی بھی تحریک کی سرپرستی جو اس ریاست کو اندر سے توڑنے کی کوشش کرے، درحقیقت خطے میں مزید انتشار اور بیرونی قبضے کی راہ ہموار کرتی ہے۔
پہلوی خاندان اور اسرائیلی مفادات
حالیہ مہینوں میں مغربی میڈیا اور صہیونی تھنک ٹینکس نے پہلوی خاندان کو ایک بار پھر منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور پر رضا شاہ پہلوی کی پوتی نور پہلوی کے شوہر سائرس اے. پہلوی کا نام ایک ممکنہ "مستقبل کے ایران” کے نمائندے کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ سائرس یہودی نژاد ہیں، اور اُنہیں ایران کے لیے بطور علامتی حکمران پیش کرنا صہیونی مفادات کی عکاسی کرتا ہے، نہ کہ ایرانی عوام کی خواہشات کی۔
رضا پہلوی کی ایران میں کوئی عوامی حمایت نہیں۔ اُن کی شخصیت مغربی میڈیا اور وہی ادارے اُچھالتے ہیں جو عراق اور شام کی تباہی میں کردار ادا کر چکے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے: آخر اس منصوبے سے فائدہ کس کو ہوگا؟ اسرائیل؟ امریکہ؟ یا وہ ایران جو پھر سے مغرب کا تابع بن جائے؟
اسرائیل میں ایران کے حملے کے بعد کا منظر
ایران کا موجودہ پرچم پہلوی دور کے شاہی پرچم سے یکسر مختلف ہے
ایران کا موجودہ پرچم پہلوی دور کے شاہی پرچم سے یکسر مختلف ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کی خودمختاری، دینی وابستگی اور انقلابی شناخت کا مظہر ہے۔ پرچم میں سبز، سفید اور سرخ رنگ کی تین افقی پٹیاں ہیں۔ درمیان کی سفید پٹی میں لفظ ‘اللہ’ کو ایک خاص انداز میں ڈھالا گیا ہے، جو وحدت، قربانی اور حاکمیتِ الٰہی کی علامت ہے۔ سبز اور سرخ پٹیوں کے کناروں پر ’اللہ اکبر‘ کے الفاظ بائیس بار تحریر ہیں، جو انقلابِ ایران کی تاریخ (22 بہمن) کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ پرچم ایران کی آزادی اور بیرونی تسلط کے خلاف اُس کے عزم کا اعلانیہ ہے۔
خطے کے لیے خطرناک نتائج
یہ کارروائی محض ایران کے خلاف ایک حملہ نہیں بلکہ پورے مغربی ایشیا کو دوبارہ بدامنی کی آگ میں جھونکنے کی سازش ہے۔ یہی حربے عراق، شام اور لیبیا کے خلاف آزمائے جا چکے ہیں، جہاں آج تک استحکام بحال نہیں ہو سکا۔
حتیٰ کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک، جو کبھی ایران کے مخالف تھے، اب اس طرح کی کھلی جارحیت سے گریز کر رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خطے کی سلامتی اسرائیلی حملوں یا مغربی حمایت یافتہ بغاوتوں سے حاصل نہیں ہو سکتی۔
اختتامیہ
"آپریشن رائزنگ لائن” انصاف کی للکار نہیں بلکہ تاریخ کے ایک اور صہیونی فریب کی بازگشت ہے۔ اسے ایک دفاعی حملہ سمجھنا بھول ہے۔ یہ ایک گہرے سیاسی منصوبے کی شروعات ہے، جس کا مقصد نہ صرف ایران کو کمزور کرنا بلکہ پورے خطے میں مغرب کے ایجنڈے کو مسلط کرنا ہے۔
وقت آ چکا ہے کہ دنیا اس بیانیے کو پہچانے، اسے بے نقاب کرے، اور ایسی کسی بھی مداخلت کے خلاف کھڑی ہو جو خودمختار ریاستوں کے وجود کو چیلنج کرے۔ امن کی راہ طاقت، فریب اور علامتی نعروں سے نہیں، بلکہ انصاف، خودمختاری اور باہمی احترام سے گزرتی ہے۔