آل انڈیا کیتھولک یونین نے ملک بھر میں عیسائیوں  میں خوف و ہراس  کےواقعات پر تشویش کا اظہار کیا

نئی دہلی،16 مارچ :۔

106 سال پرانے آل انڈیا کیتھولک یونین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ہندوستان بھر میں عیسائیوں کو ڈرانے اوردھمکانے کے واقعات پر فکر مند ہے۔

دی وائر کی رپورٹ کے مطابق ، اے آئی سی یو نے کہا کہ وہ اروناچل پردیش میں پیش آنے والے واقعات ‘بہت پریشان’ ہے جہاں اروناچل پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 1978 کو بحال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جو پچھلے 47 سالوں سے غیر فعال تھا۔اس سال کے شروع میں یہ بتایا گیا تھا کہ اروناچل پردیش حکومت اس ایکٹ کو واپس لانے کے لیے کام کر رہی ہے، جس کا مقصد ‘جبری’ تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کرنا ہے۔

اے آئی سی یو نے کہا کہ ریاست کے عیسائیوں کو خدشہ ہے کہ ایک بار قانون نافذ ہونے کے بعد قبائل اور برادریوں کے درمیان مقامی بقائے باہمی کو نقصان پہنچے گا۔

اے آئی سی یو نے یہ بھی ذکر کیا کہ مدھیہ پردیش میں وزیر اعلیٰ موہن یادو نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ تبدیلی مذہب کے خلاف قانون میں ترمیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ لڑکیوں کے تبدیلی  مذہب کو سزائے موت کے ساتھ قابل سزا جرم بنایا جا سکے۔

اے آئی سی یو نے منی پور کا بھی تذکرہ کیا، جہاں اس سال فروری میں صدر راج نافذ کیا گیا ہے اور جہاں 60000 سے زیادہ اندرونی طور پر بے گھر لوگوں کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے باقی ہیں، جو اب بھی عارضی غیر سرکاری کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ ہیٹ کرائم کو دستاویزکرنے والے گروپوں نے دسمبر 2024 تک مختلف ریاستوں میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 834 واقعات ریکارڈ کیے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے، ‘اتر پردیش اور چھتیس گڑھ وائرل نفرت، وحشیانہ ہجومی تشدد، بڑے پیمانے پر سماجی بائیکاٹ کے مرکز بن گئے ہیں، جس میں قانون اور انصاف کی مشینری کے عناصر شامل ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا کہ استثنیٰ اور سیاسی سرپرستی کے ماحول میں بہت سے حملے جوابی کارروائی کے خوف سے رپورٹ نہیں کیے جاتے۔  یونین نے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ملوث افراد، گروہوں یا تنظیموں کی نشاندہی کریں اور ان کے خلاف کارروائی کریں۔