آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  کے وفد نے اجمیردرگاہ  کا دورہ کیا

 درگاہ کمیٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے درگاہ کو مندر ہونے کے بے بنیاد دعوے کو بورڈ نے مسترد کر دیا

نئی دہلی: 12دسمبر ۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے وفد نےآج راجستھان واقع معین الدین چشتی اجمیر درگاہ کا دورہ کیا۔اس دوران وفد میں شامل ارکان نے درگاہ کمیٹی کے ارکان سے ملاقات کی اور اظہار یکجہتی کرتے ہوئے درگاہ کو مندر قرار دینے والے شر پسندوں کی مذمت کی ۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کےوفد  اس دوران پریس کانفرنس بھی  کیا ۔وفد میں شامل ارکان نے پریس کانفرنس میں   اجمیر کی درگاہ پر مندر ہونے کے دعوے کو   مسترد  کیااور کہاکہ  عدالتوں کو اس طرح کے بے بنیاد اور جھوٹے دعوؤں کو قابل اعتناء ہی نہیں سمجھنا چاہیے۔ عبادت گاہوں سے متعلق قانون ”پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991“ کی موجودگی میں اگر اسی طرح کے دعوؤں کو عدالتیں قبول کر تی رہیں اور ان پر سروے وغیرہ کے آرڈر پاس کرتی رہیں تو اندیشہ ہے کہ اس سے ملک میں لاقانونیت اور انارکی کو ہی ہوا ملے گی۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  کے وفد  کی قیادت بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا شاہ محمد فضل الرحیم مجددی نے کی اور وفدمیں ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، مولانا ابوطالب رحمانی رکن عاملہ بورڈ اور   ناظم الدین صاحب امیرحلقہ، جماعت اسلامی، راجستھان شریک تھے۔انہوں  نے درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ، اجمیر کا دورہ کیا اور درگاہ کمیٹی و سجادگان سے ملاقات کی اور درگاہ پر کئے گئے مقدمہ پر اظہار افسوس کیا۔ وفد نے ذمہ داران درگاہ کو یقین دلایا کہ بورڈ نہ صرف اخلاقی طور پران کے ساتھ ہے بلکہ وہ ہر قسم کی قانونی، سیاسی اور دستوری لڑائی میں ہر طرح سے ساتھ دے گا۔

بعد ازان سجادگان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں بورڈ نے واضح طور پر کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اجمیر کی تاریخی درگاہ پر بے بنیاد دعوے کو پوری طرح مسترد کرتا ہے، اسے اس بات پر سخت حیرت اور تشویش ہے کہ تاریخی شواہد اور قانونی دستاویزات اور 1991کے پلیسز آف ورشپ ایکٹ کی موجودگی کےباوجود کس طرح اجمیر کی مقامی عدالت نے اسے قبول کرکے اس پر نوٹس جاری کر رہی ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس بات پر سخت برہمی اور تشویش کا اظہار کر تا ہے کہ ملک کی مختلف عدالتوں میں یکے بعد دیگرےمساجد اور درگاہوں پر دعوؤں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ابھی سنبھل کی جامع مسجد کا معاملہ تھما ہی نہیں تھا کہ عالمی شہرت یافتہ اجمیر کی درگاہ پر سنکٹ موچن مہادیو مندر ہو نے کا دعویٰ کر دیا گیا۔ شکایت کنندہ نے درگاہ کمیٹی، مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور اور مرکزی محکمہ آثار قدیمہ کو مدعا علیہ بنا یا ہے۔ عبادت گاہوں سے متعلق قانون پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991کی موجودگی میں اس طرح کے دعوے قانون اور دستور کا کھلا مذاق ہیں۔

پارلیمنٹ میں قانون لاتے وقت یہ واضح کیا گیا تھا کہ 15 اگست1947 کو جس عبادت گاہ کی(مسجد، مندر، گرودوارہ، بودھ وہار، چرچ وغیرہ) کی جو پوزیشن تھی وہ علیٰ حالہ باقی رہے گی اور اس کو چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ دراصل اس کا مقصد بالکل واضح تھا کہ بابری مسجد کے بعد اب کسی اور مسجد یا دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بنا یا جا سکے۔ تاہم یہ انتہائی افسوس اور شرم کی بات ہے کہ گیان واپی مسجد، وارانسی، متھرا کی شاہی عیدگاہ، بوجھ شالہ مسجد، (مدھیہ پر دیش)، ٹیلے والی مسجد لکھنو ، سنبھل کی جامع مسجد اور جونپور کی مسجد کے ساتھ ساتھ اجمیر کی تاریخی درگاہ پر بھی دعویٰ کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اجمیر کی درگاہ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی شخصیت صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندوو ں کے لئے بھی یکسان طور قابل احترام و عقیدت ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر اس سلسلہ کو نہیں روکا گیا تو یہ ملک میں انتشاراور بدامنی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ مرکزی و ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قانون” پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991“ کو سختی سے نافذ کریں۔

پریس کانفرنس کو مولانا محمد فضل الرحیم مجددی، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس اور مولانا ابو طالب رحمانی نے مخاطب کیا۔ ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے صحافیوں کے سوالات کے جواب دیئے۔ آخر میں درگاہ کمیٹی کی جانب سے مولانا سرور چشتی صاحب نے اس اظہار یکجہتی کے لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا تہہ دل سے شکر یہ ادا کیا اور بورڈ کے ساتھ مل کر کام کر نے پر اتفاق کیا۔