آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اہم قدم،یو سی سی اور وقف بل پر سکھ،دلت اور قبائلی گروپوں کے ساتھ اتحاد
آئینی حقوق کیلئے بڑھتے خطرات کے خلاف ملک گیر سطح پر تحریک چلانے کا منصوبہ، شرکا نے اس لڑائی میں اتحاد پر زور دیا

نئی دہلی،18 فروری :۔
ملک میں یونیفارم سول کوڈ اور وقف ترمیمی بل پر ہنگامہ کے درمیان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک اہم قدم بڑھایا ہے۔ متنازعہ یونیفارم سول کوڈاور وقف بل سمیت ان کے آئینی حقوق کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کے خلاف سکھ، دلت اور قبائلی گروہوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیاہے۔ متعلقہ گروہوں نے اس سلسلے میں یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے قدم سے قدم ملانے کی رضا مندی ظاہر کی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے 16 فروری کو سکھ پرسنل لا بورڈ اور بھارتیہ بہوجن الائنس کے تعاون سے یہاں انڈین سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء میں ایک روزہ ورکشاپ بعنوان ’’موومنٹ فار کنسٹیٹیشنل رائٹس‘‘ کا انعقاد کیا۔ اس تقریب نے پسماندہ برادریوں کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرات کی طرف توجہ مبذول کروائی، جس میں مختلف مسلم، سکھ، دلت، ایس ٹی/ایس سی، اور او بی سی گروپوں کے رہنماؤں نے انصاف کے لیےلڑائی میں اتحاد کے عزم کا اظہار کیا۔
یک روزہ ورکشاپ کی افتتاحی تقریر مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحمن مجددی نے مظلوم برادریوں کے درمیان اتحاد کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ یہ ورکشاپ پسماندہ گروہوں اور اقلیتوں کے لیے آئینی حقوق کے حصول کی جانب پہلا قدم ہے جو مسلسل خطرات کا شکار ہیں۔
اے آئی ایم پی ایل بی کے ترجمان اور ورکشاپ کے آرگنائزر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے وقف بل اور یو سی سی سے لاحق خطرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اتراکھنڈ میں یو سی سی کو لاگو کرنے کے لئے حکومت کی انتھک کوشش صرف شروعات تھی، اور دیگر ریاستیں جلد ہی اس کی پیروی کر سکتی ہیں۔ "حکومت کے ایجنڈے میں رام مندر، آرٹیکل 370 اور یو سی سی شامل ہیں۔ یہ ورکشاپ ان ناانصافیوں کے خلاف ہماری لڑائی کا آغاز ہے۔
اس موقع پر مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ چار بڑے شہروں دہلی، ممبئی، کولکاتہ اور بنگلور میں ایک روزہ ورکشاپس کا ایک سلسلہ منعقد کیا جائے گا۔ یہ ورکشاپس وقف ترمیمی بل، یو سی سی، عبادت گاہوں کے قانون، ذات پات کی مردم شماری، گورننس میں حصہ داری، ریزرویشن، منڈل کمیشن کی سفارشات، اور اقلیتوں، دلتوں، قبائلیوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے آئینی حقوق جیسے فوری مسائل پر گفتگو پر مبنی ہوں گے۔ اگلی ورکشاپ 25 فروری کو ممبئی میں ہوگی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سکھ پرسنل لا بورڈ کے کنوینر پروفیسر جگموہن سنگھ نے مذہبی مقامات، ذاتی قوانین اور آئینی سالمیت کے تحفظ کے لیے پرجوش اپیل کی۔انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں اقتدار میں موجود فرقہ پرست طاقتوں کو ختم کرنے اور اپنے ملک کو آئین کے مطابق بنانے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔‘‘
ممتاز قبائلی رہنما اور بہوجن ریپبلکن سوشلسٹ پارٹی کے بانی صدر ڈاکٹر سریش مانے نے موجودہ حکومت کے تحت ہندوستان میں آدیواسی برادریوں کے بڑھتے ہوئے پسماندگی کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا ۔ ڈاکٹر مانے نے حکمراں نظام اور سنگھ پریوار کی طرف سے آدیواسیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کی سخت مذمت کی۔
او بی سی، ایس سی، اور ایس ٹی لیڈروں اور گروپوں کو خبردار کرتے ہوئے بورڈ کے سکریٹری مولانا یسین عثمانی نے کہا، ’’وہ (موجودہ ح حکومت) ہم پر نظریں جمائے ہوئے ہیں، لیکن اصل ہدف آپ ہیں۔‘‘ پسماندہ طبقوں کے مصائب پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ ان تمام لوگوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں جو امبیڈکر کے آئینی وژن کی بنیاد پر ملک کو چلانے کے لیے پرعزم ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند دہلی کے جنرل سکریٹری مفتی عبدالرازق مظہری نے کہا کہ کوئی بھی ملک اپنی تمام برادریوں کے ساتھ یکساں سلوک کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔اس موقع کئی اور ممتاز قبائلی،ایس سی ایس ٹی لیڈروں اور اہم مسلم شخصیات نے اظہار خیال کیا۔
(بشکریہ :انڈیا ٹو مارو انگریزی)