آسام: پوری ریاست میں ماگھ بیہو کی آتش بازی کے موقع پر جلائی گئیں سی اے اے کی کاپیاں
گوہاٹی، جنوری 17: آسام کی عوام، جو 9 اور 11 دسمبر، 2019 کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی طرف سے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد سے لگاتار احتجاج کر رہے ہیں، نے اپنا تہوار ماگھ بیہو یا بھوگالی بیہو نہ صرف گوہاٹی بلکہ دیگر شہروں اور گاؤں سمیت پوری ریاست میں سی اے اے کی کاپیاں جلا کرمنایا۔
ماگھ بیہو آسام اور شمال مشرق کے دیگر حصوں کے لوگوں کا سب سے بڑا تہوار ہے، جو 14 جنوری کو کٹائی کے موسم کے اختتام پر منایا جاتا ہے۔
تاہم شمال مشرقی خطے میں سی اے اے کی کاپیاں جلانے کی خبریں قومی میڈیا کے ذریعہ نہیں چلائی گئیں۔ کسی بھی پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا نے اس واقعے کو زیادہ کوریج نہیں دی حالانکہ میڈیا نے واضح طور پر یہ اطلاع دی تھی کہ قانون کی منظوری کے بعد ریاست میں ابتدا ہی میں احتجاج شروع ہوا تھا۔ آسام میں ہونے والے احتجاج میں پانچ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جو اب تک وقفے کے بغیر جاری ہے۔ گوہاٹی اور ریاست کے بہت سے دوسرے قصبے کئی دن کرفیو کی زد میں رہے اور انٹرنیٹ خدمات بھی نو روز تک معطل رہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی مظاہروں کی وجہ سے گوہاٹی میں اپنے دو پروگرام منسوخ کرنے پڑے۔ ایک جاپانی وزیر اعظم کے دورے سے متعلق اور دوسرا کھیلو انڈیا گیمز کے افتتاح کا۔
ماگھ بیہو جس کا مرکزی خیال اس سال "سی اے اے آمی نہ مانو (ہم سی اے اے قبول نہیں کریں گے) تھا، میں عوام نے وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ، آسام کے وزیر اعلی سربانندا سونووال اور وزیر مملکت برائے خزانہ ہمنتا بسوا سرما کے مجسمے بھی ماگھ بیہو کے ”میجس” (الاؤ) میں جلائے۔ اور یہ عمل پورے دیہی اور شہری علاقوں میں ہوا۔ اتنے بڑے پیمانے پر کسی بھی سیاسی رہنما کے مجسموں کو کبھی بھی نہیں جلایا گیا۔ سی اے اے کی کاپیاں جلانا اور مودی، شاہ ، سونووال اور سرما کے مجسموں کو جلا دینا سی اے اے کے خلاف لوگوں میں شدید غم و غصے کی نشاندہی کرتا ہے۔
باقی ہندوستان کی طرح جہاں سی اے اے مخالف مظاہروں کی ایک عوامی تحریک بن چکی ہے جس میں کوئی سیاسی رہنما ان کی قیادت یا رہنمائی نہیں کررہا ہے، آسام میں بھی 11 دسمبر 2019 کو ہونے والے مظاہرے کے پہلے دن سے ہی ایسا ہی ہورہا ہے۔ یہ تمام آسام اسٹوڈنٹس یونین اور دیگر سماجی گروپس، مختلف یونی ورسٹیوں کے طلبا، فنکار اور تھیٹر گروپس ہیں جو پوری ریاست کے لوگوں کے زبردست ردعمل کے ساتھ سی اے اے مخالف تحریک کی قیادت کررہے ہیں۔
آسام کے طلبا یونین اور دیگر تنظیموں نے بھی اپنے دفاتر میں سی اے اے کی کاپیاں جلائیں۔
ماگھ بیہو کے موقع پر بہت سے وکلا نے بھی اپنے دفتر کے احاطے میں اس قانون کی کاپیاں نذر آتش کیں۔
ماگھ بیہو کے ”میجیس” (الاؤ) میں سی اے اے کی کاپیاں جلانے کے بعد متنازعہ قانون کے خلاف مظاہرے کے طور پر ریاست کے متعدد حصوں میں کالے جھنڈے آویزاں کیے گئے۔
گوہاٹی یونی ورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر ہیرین گوہین نے لوگوں سے قانون کی کاپیاں جلانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ”بی جے پی حکومت اپنے ہندو بنگالی ووٹ بینک کو بچانے کے لیے قانون، جو کہ فرقہ وارانہ اور غیر آئینی ہے، لائی ہے۔ اگر یہ قانون نافذ ہوتا ہے تو آسام میں تقریبا 20-25 لاکھ ہندو بنگلہ دیشیوں کو شہریت مل جائے گی۔ آسام، اس کی زبانیں، ثقافت اور اس کے عوام کی بقائے باہمی کے جذبے کو بچانے کے لیے آپ کو 2020 کے اسمبلی انتخابات میں ریاست سے فاشسٹ بی جے پی حکومت کو نکالنا پڑے گا۔”