آسام: پندرہ سرکاری دستاویزوں سے بھی شہریت ثابت نہیں ہوئی
گواہاٹی: آسام سے کہانی ایک ایسی خاتون کی جس نے اپنی اور اپنے شوہر کی شہریت ثابت کرنے لیے 15 قسم کے دستاویز پیش کیے۔ لیکن وہ فارنرز ٹربیونل میں کیس ہار گئیں۔ اس فیصلے کو انھوں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تو وہاں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اب وہ زندگی سے ہارتی نظر آ رہی ہیں۔ سارا پیسہ کیس لڑنے میں خرچ ہو چکا ہے۔ شوہر بیمار ہیں، بیٹی پانچویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ ڈیڑھ سو روپیے دہاڑی میں کیسے کام چلے گا۔ اوپر سے شہریت چلی گئی ہے۔ اب میاں بیوی کا ہر لمحہ خوف کے سائے میں گزر رہا ہے۔
آسام میں رہنے والی ایک 50 سالہ خاتون، جاویدہ بیگم، جو بڑی مشکل سے اپنے خاندان کی پرورش کر رہی ہیں۔ وہ تن تنہا اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ ٹربیونل کے ذریعے غیر ملکی قرار دیے جانے والی جاویدہ بیگم ہائی کورٹ میں اپنی لڑائی ہار چکی ہیں، اور سپریم کورٹ ان کی پہنچ سے دور ہے۔ جاویدہ گواہاٹی سے لگ بھگ 100 کلومیٹر دور بکسا ضلعے میں رہتی ہیں۔ وہ اپنے خاندان کی واحد کمانے والی رکن ہیں۔ ان کے شوہر رزاق علی طویل عرصے سے بیمار ہیں۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں، جن میں سے ایک کی حادثے میں موت ہو گئی اور ایک کہیں گم ہو گئی۔ سب سے چھوٹی اسمنا پانچویں جماعت میں پڑھتی ہے۔
جاویدہ بیٹی کے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان رہتی ہے۔ اسکی کمائی کا بیشتر حصہ اپنی قانونی لڑائی میں خرچ ہو جاتا ہے، ایسے میں اس کی بیٹی کو بسا اوقات بھوکی ہی سونا پڑتا ہے۔ جاویدہ کا کہنا ہے، ‘مجھے فکر ہے کہ میرے بعد اس کا کیا ہوگا؟ میں اپنے لیے تو امید کھو چکی ہوں۔’
گویاباری گاؤں کی رہنے والی خاتون کو ٹربیونل نے 2018 میں غیر ملکی قرار دے دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اپنے پچھلے احکام میں سے ایک کا حوالہ دیتے ہوئے، ان کے ذریعے جمع کئے گئے کاگجات – بھومی راجسو رسید، بینک دستاویز اور پین کارڈ کو شہریت کا ثبوت ماننے سے انکار کر دیا۔ آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ جاویدہ کہتی ہیں کہ ‘میرے پاس جو تھا، وہ میں خرچ کر چکی ہوں۔ اب میرے پاس قانونی لڑائی لڑنے کے لیے وسائل نہیں بچے ہیں۔’
آسام NRC اہل کاروں کا گھںاونا چہرہ، ڈیٹا ڈیلیٹ کیا گیا، اہم ای میل پیغام چھپائے گئے
جاویدہ بیگم نے ٹربیونل کے سامنے اپنے والد جاوید علی کے سال 1966، 1970، 1971 کی ووٹر لسٹوں سمیت 15 دستاویز جمع کیے تھے، لیکن ٹربیونل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کے ساتھ اپنے لنک کے قابل اطمینان ثبوت پیش نہیں کر سکی۔ پیدائش کی سند کی جگہ اس نے اپنے گاؤں کے پردھان سے سند بنوا کر پیش کی۔ مذکورہ سند میں اس کے خاندان کے افراد کا نام اور مقام پیدائش درج ہے، لیکن پھر بھی اسے نہ تو ٹربیونل نے قبول کیا اور نہ ہائی کورٹ نے۔
گاؤں کے پردھان گولَک کالِتا نے بتایا، ’’مجھے گواہ کے طور پر بلایا گیا تھا۔ میں نے کہا کہ میں اسے جانتا ہوں، قانونی طور پر اس کی رہائش کی تصدیق بھی کی۔ ہم گاؤں کے لوگوں کو مستقل رہائشی ہونے کا سرٹیفیکٹ دیتے ہیں۔ خاص طور پر ان لڑکیوں کو جو شادی کے بعد دوسری جگہ چلی جاتی ہیں۔‘‘
برہم پتر دریا میں سیلاب آنے سے کٹاؤ کی وجہ سے جب جاویدہ اور رزاق کے والدین کی زمین چلی گئی تو وہ لوگ بکسا کے اس گاؤں میں آ گئے تھے۔ جاویدہ کے پاس جو تین بیگھہ زمین تھی اسے بھی انہوں نے کیس لڑنے کے لیے ایک لاکھ روپے میں بیچ دیا تھا۔ اب وہ 150 روپے دہاڑی پر کام کرتی ہیں۔
جاویدہ کے شوہر کہتے ہیں: ’’جو بھی تھا ہم نے خرچ کر دیا۔ کچھ کام نہیں آیا۔ این آر سی میں بھی نام نہیں آیا۔ امید ختم ہو رہی ہے، موت قریب آ رہی ہے۔‘‘
(بشکریہ این ڈِ ٹی وی)