آسام میں128 سال پرانی مسجد منہدم،مسلمانوں کی رضا مندی سے کارروائی کا دعویٰ

علاقے میں پانی کی نکاسی کے نظام میں بہتری کا حوالہ دے کر  انتظامیہ نے مقامی مسلمانوں کے رضا مندی سے انہدامی کارروائی کرنے کا دعویٰ کیا

نئی دہلی ،ڈبرو گڑھ (آسام)، 28 جون :۔

آسام میں ہمنتا بسوا سرما کی حکومت میں مساجد اور مدارس خاص طور پر نشانے پر رہے ہیں ۔مسلمانوں اور اسلامی شناخت کے خلاف کارروائی آسام میں ہمنتا بسوا سرما حکومت کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔آئے دن حکومت ایسے فیصلے لیتی ہے جو مسلمانوں کے اور اقلیتوں کے خلاف ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمنتا حکومت کا مسلمانوں کی ’بہتری‘ میں اٹھایا گیا قدم بھی مشکوک معلوم ہوتا ہے ۔اسی سلسلے میں آسام کے ڈبرو گڑھ شہر میں مقامی انتظامیہ  کے ذریعہ  ایک 128 سالہ قدیم مسجد کو منہدم  کرنا بھی دیکھا جا رہا ہے ۔حالانکہ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ پانی بھرنے کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکام نے 128 سال پرانی چولکھوا جامع مسجد کو منہدم کر دیا ہے تاکہ نکاسی کا نظام بہتر کیاجا سکے۔   ۔

رپورٹ کے مطابق ڈبرو گڑھ میونسپل کارپوریشن کے بورڈ کمشنر جئے وکاس نے  دعویٰ کیا کہ ڈبرو گڑھ میں مصنوعی سیلاب کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے، ضلع انتظامیہ نے   مسجد کو منہدم کر دیا تاکہ بوکول سے سیسا پل تک ایک بڑا نکاسی کا نظام بنایا جا سکے۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ  "مسجد کو منہدم کرنے کی کارروائی میں زمین کے حصول سمیت قانونی طریقہ کار پر عمل کیا گیا اور حاصل شدہ زمین کے معاوضے کا عمل جاری ہے۔دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ  وکاس نے اس عمل کے دوران تعاون کے لیے مقامی لوگوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔حالانکہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر انتظامیہ پر تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے ایک قدیم اور تاریخی مسجد کو جبراً منہدم کردیا ۔اس انہدامی کارروائی کو حکومت کے مسلم مخالف قرار دینے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔

بورڈ کمشنر جے وکاس نے اس طرح کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مقامی مسلمانوں نے اس انہدامی کارروائی پر انتظامیہ کا تعاون کیا۔ انہوں نےکہا کہ  "مسجد کے انہدام کے بعد، ایک طبقہ سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلا رہا ہے کہ مسجد کو ضلعی انتظامیہ نے زبردستی گرایا ہے، تاہم، ایسا نہیں ہے، کمیونٹی نے ہمارا مکمل ساتھ دیا۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ چولکھوا  جماعت کمیٹی کے صدر لیاقت علی نے کہا کہ مسجد خالی نہیں کی گئی بلکہ قانونی اراضی کے حصول کے عمل کے بعد باہمی رضامندی کی بنیاد پر مسمار کی گئی۔انہوں نے کہاکہ یہ فیصلہ شہر کے وسیع تر مفاد میں لیا گیا ہے کیونکہ نیا نکاسی کا نظام ڈبرو گڑھ کے سیلاب سے بچاؤ کے منصوبے کی ایک اہم جہت ہے۔

بوکول سے دریائے سیسا تک دوسرے نکاسی کے راستے کی تعمیر سے سیلاب زدہ شہر میں پانی کے جمع ہونے کے مسئلہ کو نمایاں طور پر کم کرنے اور شہری بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی امید ہے۔