آسام :متعصب ہمنتا بسوا سرماحکومت کی انہدامی کارروائی سےہزاروں مسلمان بے گھر
جمعیة علماءہند کا وفد ضلع گوالپاڑہ کے متاثرہ علاقوں کے دورے پر، حکومت آسام کومیمورنڈم:جانبدارانہ کارروائی پر سوال، معاوضہ اور بازآبادکاری کا مطالبہ

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی/گوالپاڑہ، 16 جولائی :۔
جمعیة علماءہند کے اعلیٰ سطحی وفد جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی کی قیادت میں ریاست آسام کے ضلع گوالپاڑہ کا دورہ کیا، جہاں حال ہی میں آشدوبی اور ہسیلابیل کے علاقوں میں حکومتِ آسام کی جانب سے انہدامی کارروائی کے تحت 3973 مکانات کو مسمار کیا گیا ہے۔ ان علاقوں کے بیشتر متاثرین بنگالی نژاد مسلمان ہیں۔
یہ وفد جمعیةعلماءہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمد حکیم الدین قاسمی کی قیادت میں متاثرہ مقامات پر پہنچا، متاثرین سے ملاقات کی اور ان کے حالات کا جائزہ لیا، متاثرہ افراد کی حالت دیکھ کر وفد کو بہت زیادہ دکھ ہوا اور ان کی ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔ وفد میں سربراہ وفد کے علاوہ دیگر ممبران بھی شامل تھے ۔
جمعیۃ علمائے ہند کی اطلاع کے مطابق وفد نے ضلع مجسٹریٹ کے توسط سے وزیر اعلیٰ آسام ہمنتا بسوا سرما کے نام ایک یادداشت بھی پیش کی، جس میں انہدامی کارروائی کو غیر انسانی، غیر آئینی اور مذہبی تعصب پر مبنی قرار دیا گیا۔ یادداشت میں کہا گیا کہ یہ انہدامی کارروائیاں صرف ان علاقوں میں کی گئیں جہاں بالخصوص بنگالی مسلمان آباد تھے، جبکہ انہی زمینوں پر دیگر برادریوں کے مکینوں کو نہیں چھیڑا گیا جو کہ امتیازی سلوک اور مذہبی بنیاد پر جانبداری کی واضح مثال ہے۔
متاثرین سے ملاقات کرتے جمعیۃ علمائے ہند کے وفد کے ارکان
یادداشت میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرہ افراد گزشتہ ستر اسی سالوں سے ان زمینوں پر رہائش پذیر ہیں، ان کی اکثریت برہمپترا ندی کی تباہ کاریوں سے بے گھر ہونے والوں کی ہے اور وہ سبھی باقاعدہ بھارتی شہری ہیں۔ ان کو بے دخل کرنا انصاف اور انسانی اقدار کے منافی ہے۔ بعض علاقوں میں تو انہدام کی کارروائی صنعتی یا نجی مفادات کی خاطر انجام دی گئی اور متاثرین کو پیشگی اطلاع دینا تک ضروری نہیں سمجھا گیا جو کہ قانونی تقاضوں اور سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔میمورنڈم میں مطالبہ کیا گیا کہ بے دخلی سے پیدا شدہ سنگین انسانی بحران کے ازالے کے لیے فوری طور پر متاثرہ افراد کی بازآبادکاری کے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ آسام میں اب بھی سرکاری خاص زمین کے وسیع قطعے دستیاب ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان بے دخل شدہ افراد کے لیے متبادل انتظامات اور معاوضے کی فراہمی کے لیے آگے آئے۔ جب تک مستقل بندوبست نہ ہو جائے، حکومت کو عارضی طور پر ان متاثرین کو خوراک اور پناہ فراہم کرنی چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرے گی۔
جمعیة علماءآسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل اور جنرل سکریٹری حافظ بشیر احمدقاسمی کی جانب سے پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ضلع گوالپاڑہ، دھوبڑی اور نلباری سمیت مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر 8115 خاندان متاثر ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں 32530سے زائد افراد جن میں عورتیں، بچے اور بزرگ شامل ہیں بے گھر ہو چکے ہیں۔رپورٹ کے مطابق نومبر 2023 سے جولائی 2025 تک جاری انہدامی کارروائیوں میں اب تک 21مساجد، 44مکتب و مدارس اور 9عیدگاہیں بھی مسمار کی جا چکی ہیں۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے جمعیة علماءہند کی طرف سے ان متاثرہ ا فراد کے لیے پناگاہوں اور کھانے پینے کا بھی انتظام کیا گیا ہے، تاہم یہ انتظامات ناکافی ہیں۔ ابھی مزید انتظام کی سخت ضرورت ہے۔