آسام شہریت کے تعلق سے سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ، کٹ آف ڈیٹ 1971 قانونی طور پر درست قرار
آسام میں برسوں سے اپنی شہریت کی لڑائی لڑنے والے لاکھوں لوگوں کو راحت ،عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا
نئی دہلی 17اکتوبر :
آسام شہریت کے تعلق سے آج سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کی دفعہ اے6 کو آئینی قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 ججوں کی بنچ نے کثرت رائے سے یہ فیصلہ سنایا اور آسام کے لیے کٹ آف ڈیٹ 1971 کو قانونی طور پر درست قرار دیا۔اس فیصلے سے آسام کے لاکھوں لوگوں کو راحت ملے گی جن کے اوپر دہائیوں سے شہریت کی تلوار لٹکی ہوئی تھی۔ فیصلہ سنا تے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ایکٹ آسام معاہدہ کے مطابق ہے جس کی رو سے جو شخص بھی 25مارچ 1971 سے پہلے آسام میں رہ رہا تھا، وہ اور اس کی اولاد ہندوستانی شہری شمار کی جائے گی۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے لاکھوں لوگ جو دہائیوں سے اپنی ہندوستانی شناخت اور شہریت کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں ۔ اس فیصلے کے بعد آسام بھر میں جشن کا ماحول ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس سندریش اور جسٹس منوج مشرا نے اے6 کی آئینی حیثیت کے حق میں فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس چندر چوڑ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آسام معاہدہ غیر قانونی پناہ گزینوں کے مسئلے کا سیاسی حل تھا اور اس میں دفعہ اے6 قانون کے عین مطابق ہے۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اس قانون کو دوسرے علاقوں میں بھی لاگو کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیوں کہ یہ آسام کے لئے خاص ہے۔عدالت نے مانا کہ اے6 کے تحت 25 مارچ 1971 کی کٹ آف ڈیٹ بھی درست ہے کیوں کہ آزادی کے بعد بھارت کے دوسرے علاقوں کے مقابلے مشرقی پاکستان سے آسام میں ہجرت زیادہ ہوئی۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ خصوصاً مہاجرین کو شہریت دینے اور آسام کے ’مقامی‘ باشندوں کے حقوق کے حوالے سے کئی اہم سوالات کا جواب دے گا۔ درخواست گزاروں میں آسام پبلک ورکس، آسام سنمیلیتا مہا سنگھا اور دیگر شامل ہیں، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ آسام کے لیے الگ شہریت کی کٹ آف تاریخ طے کرنا غیر منصفانہ، غیر قانونی اور امتیازی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آسام کی آبادیاتی ساخت میں تبدیلی مقامی لوگوں کے ثقافتی حقوق، اقتصادی حالات اور سیاسی کنٹرول کو متاثر کرے گی، جو آئین کے آرٹیکل 29 کے تحت محفوظ ہیں۔
دوسری جانب، مرکزی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 11 کا حوالہ دیا ہے، جو پارلیمنٹ کو شہریت سے متعلق قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔ جبکہ دوسرے فریقین، بشمول این جی او ‘سٹیزنز فار جسٹس اینڈ پیس’ نے دلیل دی کہ اگر دفعہ 6A کو کالعدم قرار دیا گیا تو آسام میں کئی دہائیوں سے شہریت کے حقوق رکھنے والے لوگ ’بے وطن‘ ہو جائیں گے اور انہیں غیر ملکی تصور کیا جائے گا۔
آسام میں مسلمانوں کی شہریت کی جدو جہد میں شامل صدر جمعیة علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے اس تاریخی فیصلے پرکہا کہ جمعیة علماء ہند گزشتہ چھ دہائیوں سے آسام کے غریب اور مظلوم انسانوں کے لیے ہر محاذ پر جدوجہد کررہی ہے ، یہ فیصلہ جمعیة علماء ہند کی جد وجہد میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا اور ان لوگوں کو راحت ملے گی جو شہریت کی امید کھو بیٹھے تھے۔