آسام :منتخبہ علاقوں میں اسلحہ لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ تشویشناک

جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ اسلحہ لائسنس کے ذریعہ منتخب لوگوں کا با اختیار بنانے کا  مقصد آسام میں موجود اقلیتی برادریوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی،30 مئی :۔

جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے آسام حکومت کے اس فیصلے پر اپنی گہری تشویش ظاہر کی ہے جس کے تحت ریاست کے ‘حساس’ علاقوں کے لیے اسلحہ لائسنس جاری کئے جائیں گے ۔
میڈیا کے لیے جاری اپنے بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر نے کہا کہ
ہم آسام کابینہ کے حالیہ فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں جس کے مطابق ریاست کے ان علاقوں میں، جنہیں ‘حساس اور دور دراز’ کہا گیا ہے، ‘ اصل باشندوں اور مقامی بھارتی شہریوں’ کو اسلحہ لائسنس جاری کئے جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے اعلان کردہ اس پالیسی کو ہم ایک متعصبانہ اور خطرناک قدم سمجھتے ہیں۔ یہ فیصلہ ریاست میں سماجی کشیدگی میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے اور اس سے قانون کی بالادستی کمزور ہوگی۔
ملک معتصم خان نے کہا کہ شہریوں کو منتخب انداز میں مسلح کرنے کے فیصلے کے حوالے سے حکومت کی منشاء اور اس کے ممکنہ اثرات پر کئی سنگین سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ منتخبہ علاقوں کو ’حساس‘ قرار دے کر مخصوص گروہوں کو اسلحہ لائسنس دینا اقلیتوں کو حاشیے پر ڈالنے اور انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ آسام حکومت کی طرف سے ’اصل باشندوں‘ کی تعریف بھی نہایت مبہم ہے جو اسلحہ لائسنس کے اجرا میں من مانی اور امتیازی سلوک کو جنم دے سکتی ہے۔
ملک معتصم خان نے مزید کہا اس اقدام کو آسام حکومت کے ان حالیہ رویوں کے پس منظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے ۔ جن میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو ‘غیر ملکی’ قرار دے کر بغیر کسی قانونی عمل کے حراست میں لینا اور ایسی پالیسیاں نافذ کرنا شامل ہیں جو اقلیتی برادریوں کو غیر مناسب طور پر متاثر کرتی ہیں۔ ایسے اقدامات سماج میں خوف کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ پولیس، بی ایس ایف اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو کمزور کرتے ہیں اور روزمرہ کی زندگی میں انتہائی درجے کے تشدد کا باعث بن سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند آسام حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس متعصابانہ فیصلے کو فوری طور پر واپس لے اور تمام متعلقہ فریقوں کو اعتماد میں لیکر ان سے بات چیت کرے تاکہ سلامتی کے مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکے۔ ملک معتصم خان نے کہا کہ تشدد کو ہوا دینے یا سماجی و فرقہ وارانہ تقسیم کو گہرا کرنے کے بجائے باہمی اعتماد کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس فیصلے کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور آسام کی تمام برادریوں کے حقوق اور سلامتی کو یقینی بنائیں۔

واضح رہے کہ ہمنتا بسوا سرما   کابینہ نے گزشتہ روز بدھ  کو بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب "غیر محفوظ اور دور دراز” علاقوں میں رہنے والے "مقامی اور مقامی کمیونٹیز” کو ہتھیاروں کے لائسنس جاری کرنے کے منصوبے کی منظوری دی۔ ان اضلاع میں دھوبری، ناگاؤں، موریگاؤں، برپیٹا، گولپاڑہ اور جنوبی سلمارا-مانکاچار شامل ہیں، جہاں بنگلہ دیشی نژاد مسلمان اکثریت میں ہیں اور مقامی آبادی اقلیت میں ہے۔

سرما نے نامہ نگاروں کو بتایا۔ "دھوبڑی، ناگون، موریگاؤں، برپیٹا، جنوبی سلمارہ اور مانکاچار، گولپاڑہ اضلاع میں (جہاں بنگلہ دیشی نژاد مسلمان اکثریت میں ہیں)، مقامی لوگ اقلیت میں ہیں [اور] مستقل عدم تحفظ کا سامنا ہے، خاص طور پر بنگلہ دیش میں حالیہ پیش رفت کے پیش نظر۔ یہ مقامی آبادی بنگلہ دیشی   حملوں کا شکار ہو سکتی ہے۔” انہوں نے کہا، "کابینہ کا فیصلہ اہم اور حساس ہے۔ بنگلہ دیش میں حالیہ پیش رفت کی وجہ سے، ان اضلاع کے مقامی باشندے عدم تحفظ کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ انہیں بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ ان کے اپنے دیہات سے حملوں کے خطرے کا سامنا ہے۔