آسام:رشتہ داروں کی چیخ و پکار کے درمیان28 مسلمان حراستی کیمپ میں بھیجے گئے
ہندوستانی ہونے کے دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے آسام پولیس نے حراستی کیمپ میں بھیجا،9 خواتین اور 19 مرد شامل
نئی دہلی ،03 ستمبر :۔
آسام میں بسوا سرما حکومت کا مسلمانوں کے خلاف اقدامات جاری ہے۔پھر ایک دلدوز منظر آسام سے سامنے آیا ہے جہاں 28 مسلمانوں کو حراستی کیمپ میں ڈال دیا گیا ہے۔اہل خانہ سے جدائی کا منظر دل دہلا دینے والا ہے۔وائرل ویڈیو میں لوگ روتے بلکتے نظر آ رہے ہیں ۔ بتایا جا رہا ہے کہ 28 مسلمانوں کوغیر ملکی قرار دیا گیا ہے۔ ان کے پاس ہندوستانی ہونے کے دستاویزات مکمل نہیں تھے۔ 28 لوگوں میں سے9 خواتین ہیں اور 19 مرد ہیں۔جس وقت ان تمام کو پولیس ایک بس میں بھر کر حراستی کیمپ لے کر جا رہی تھی اہل خانہ کو رو رو کر برا حال تھا ۔
آسام کی مسلم اسٹوڈنٹ یونین نے اس معاملے پر اعتراض کیا ہے۔ آسام کی مسلم اسٹوڈنٹ یونین کے صدر عاشق ربانی نے اسے سراسر غلط قرار دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس اقدام کے خلاف احتجاج بھی کریں گے۔ دوسری جانب گوہاٹی ہائی کورٹ کے سینئر وکیل رضاء الکریم نے آسام کی پارٹی تنظیم سے اپیل کی ہے کہ ان 28 افراد کی ہر ممکن مدد کریں۔
رپورٹ کے مطابق برپیٹا ضلع کے مختلف علاقوں سے 28 خاندانوں میں سے ہر ایک کو تھانوں میں بلایا گیاتھا، جس کے بعد انہیں ایس پی آفس بلایا گیا اور زبردستی بس میں سوار کرایا گیا۔ آسام پولیس کی سرحدی برانچ کی طرف سے غیر ملکی نوٹس بھیجے گئے تھے اور ان کے مقدمات غیر ملکیوں کے ٹربیونلز کو بھیجے گئے تھے، جہاں کئی سماعتوں کے بعد انہیں غیر ملکی قرار دیا گیا تھا۔
فارنرز ٹربیونلز غیر قانونی ہجرت کے مقدمات کو نمٹانے کے لیے فارنرز ایکٹ 1946 کے تحت قائم نیم عدالتی ادارے ہیں۔ آسام میں تقریباً 100 ایسے ٹربیونل ہیں جو ڈی (مشکوک) ووٹروں اور غیر ملکیوں کے مقدمات سے نمٹتے ہیں۔ آسام میں اس طرح کے ٹربیونل مقامی آسامیوں کی طرف سے پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کا پتہ لگانے کے لیے ایک طویل تحریک کے بعد قائم کیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن آسامی لوگوں کی شناخت اور ثقافت کے لیے خطرہ ہیں۔