آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی زیادہ بچے پیدا کرنے کی وکالت
موہن بھاگوت نے شرح پیدائش میں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے آبادی کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے دو سے زائد بچوں کی ضرورت ہے
نئی دہلی،یکم دسمبر :۔
ایک طرف جہاں شدت پسند ہندو تنظیمیں مسلمانوں پر زیادہ بچے پیدا کرنے اور آبادی میں اضافہ کا ذمہ دار قرا ر دیتے ہوئے طعن و تشنیع کرتے ہیں وہیں اب ان کے مکھیا خود زیادہ بچے پیدا کرنے کی وکالت کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے شرح پیدائش میں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معاشرے جن کی پیدائش کی شرح 2.1 سے کم ہوئی، وہ ختم ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے دو سے زائد بچوں کی ضرورت ہے۔
بھاگوت نے ایک پروگرام کے دوران کہا، ’’جدید آبادیاتی سائنس کے مطابق، اگر کسی معاشرے کی شرح تولید 2.1 سے نیچے چلی جائے تو وہ معاشرہ دنیا سے ختم ہو جاتا ہے، چاہے کوئی بحران نہ ہو۔ اس لیے ہمیں اپنی شرح تولید کو 2.1 سے کم ہونے سے روکنا ہوگا۔‘‘
بھاگوت نے زور دیا کہ ہندوستان کی موجودہ آبادیاتی پالیسی کے مطابق، شرح تولید کو 2.1 پر برقرار رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، "اگر ہمیں 2.1 کی شرح تولید چاہیے تو ہر خاندان میں دو سے زیادہ بچے ہونے چاہئیں، بلکہ تین ہونا زیادہ بہتر ہے۔ یہ نہ صرف سماجی بقاء کے لیے ضروری ہے بلکہ سائنسی تحقیق بھی یہی کہتی ہے۔‘‘بھاگوت نے کہا کہ ماضی میں بھی آر ایس ایس نے آبادی کے توازن پر زور دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ غیر متوازن آبادی ہندوستانی جمہوریت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کئی زبانیں اور کئی معاشرے تباہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے آبادی میں اضافے کی شرح کو 2.1 سے نیچے نہیں جانا چاہیے۔ ہمارے ملک نے آبادی کی پالیسی 1998 یا 2002 میں تیار کی تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ آبادی میں اضافے کی شرح 2.1 سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ہم آبادی میں اضافے کی شرح 2.1 پر غور کریں تو ہمیں دو سے زیادہ بچوں کی ضرورت ہے۔ تین بچے ہونے چاہئیں۔ آبادی سائنس یہی کہتی ہے۔ بھاگوت نے کہا کہ تعداد سماج کی بقا کے لیے اہم ہے۔
واضح رہے کہ آئے دن بی جے پی رہنما اور شدت پسند ہندو تنظیمیں ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دیتی ہیں اور دو سے زائد بچوں پر پابندی کا مطالبہ کرتی ہیں لیکن اب خود آر ایس ایس کے سربراہ ہندوؤں کو دو سے زائد بچے پیدا کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔