آر ایس ایس سر براہ موہن بھاگوت کوہندوسنتوں کی مخالفت کا سامنا
ہندو مذہبی رہنما رام بھدراچاریہ نے ذاتی بیان قرار دیا ، آل انڈیا سنت سمیتی نے بھی تنقید کی
نئی دہلی ،24 دسمبر :۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے گزشتہ دنوں ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور ایکتا پر ایک بیان دیا تھا ،جس میں انہوں نے مندر مسجد کے آئے روز تنازعہ پر تنقید کی تھی ۔آر ایس ایس رہنما بھاگوت کے اس بیان کی جان بعض مسلم اراکین پارلیمنٹ نے تعریف کی اور قابل عمل قرار دیتے ہوئے اسےملک کے مفاد میں قرار دیا وہیں موہن بھاگوت کو اپنے ہی لوگوں سے سخت تنقید اورشدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جس دن موہن بھاگوت نے یہ بیان دیا اسی دن اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ان کے بیان کو نظر انداز کرتے ہوئےمسلم حکمرانوں اورنگ زیب اور بابر پر طنز کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور مندر مسجد معاملے پرنفرت انگیز بیان دیا تھا وہیں اب ہندو مذہبی رہنما اور سنت رام بھدراچاریہ نے بھی مخالفت کی ہے اور کہا کہ یہ ان کا ذاتی بیان ہو سکتا ہے، وہ سنگھ کے سنچالک ہو سکتے ہیں ہندو مذہب کے نہیں۔ انہوں نے موہن بھاگوت کے مندر مسجد تنازعہ پر دیئے گئے بیان کو سرے سے خارج کرتے ہوئے کہا کہ سنبھل میں مسجد میں مندر کے ثبوت ملے ہیں ہم اسے لے کر رہیں گے۔اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ جب سنگھ نہیں تھا تب بھی ہندو تھے۔رام بھدراچاریہ کے بیان کے بعد موہن بھاگوت کے بیان کی کچھ دوسرے سنتوں نے بھی مخالفت کی ہے۔ اترا کھنڈ کے جیوترمے پیٹھ کے شنکراچایہ اویمکتیشورانند سرسوتی نے بھی رد عمل کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ موہن بھاگوت کا بیان سیاسی طور پر سلجھا ہوا بیان ہے۔انہوں نے کہا کہ جب انہیں اقتدار چاہئے تھا تو وہ مندروں کے بارے میں بولتے رہے اور جب ان کے پاس اقتدار ہے تو اب مندر تلاش نہ کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں ہندوؤں پر مظالم ہوئے ہیں اور مندروں کو تباہ کیا گیا ہے تو اب ہندو چاہتے ہیں ان کی بحالی تو ہم کیوں نہ کریں۔
ان کے بیان پر آل انڈیا سنت سمیتی کی جانب سے بھی تبصرہ سامنے آیا ہے۔اے کے ایس ایس کے جنرل سکریٹری سوامی جتیندرند سرسوتی نے کہا کہ اس طرح کے مذہبی معاملات کا فیصلہ آر ایس ایس کے بجائے ‘دھرماچاریوں’ کو کرنا چاہیے۔ سرسوتی نے کہا، ‘جب مذہب کا مسئلہ اٹھے گا تو مذہبی گرو کو فیصلہ لینا ہوگا اور وہ جو بھی فیصلہ لیں گے، اسے سنگھ اور وی ایچ پی کو قبول کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھاگوت کے اسی طرح کے تبصروں کے باوجود، 56 نئی جگہوں پر مندر کی نشاندہی کی گئی ہے، جو ان تنازعات میں مسلسل دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی تنظیمیں اکثر سیاسی ایجنڈوں کے بجائے عوامی جذبات کے جواب میں کام کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب موہن بھاگوت کو خود ہندوؤں کے ذریعہ تنقید اور بڑے اختلاف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔در اصل اس کے پیچھے ان کا ایک بیان ہے، جس میں وہ کہتے ہیں، ‘کچھ لوگ مندر-مسجد کا مسئلہ اٹھاتے ہیں تاکہ وہ خود کو ہندوؤں کے لیڈر کے طور پر قائم کر سکیں۔ خاص طور پر رام مندر کے حوالے سے ایسی باتیں زیادہ دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ موہن بھاگوت کے اس بیان سے تمام ان ہندو سنتوں کی دکان بند ہوتی نظر آ رہی ہے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر اپنی دکان چلاتے ہیں اور مندر و مسجد کا معاملہ گرم کر کے اپنی شہرت قائم کئے ہوئے ہیں ۔ اس لئے وہ تمام سنت موہن بھاگوت کے بیان سے خفا ہیں۔